بین الاقوامی وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے ذریعے ہندوستانی ماہرین نے یہ جانا کہ امریکہ کس طرح اختراع، تعلیم اورسلامتی کے مثلث سے سائبر سکوریٹی کو مضبوط بناتا اور مصنوعی ذہانت کی ترقی کو سمت و رفتار عطا کرتا ہے۔
کریتیکا شرما
جب مصنوعی ذہانت اور سائبر خطرات میں قانون سازی سے زیادہ تیزی سے تبدیلی آ رہی ہو تو ایسے میں ملک اپنے ڈیجیٹل ڈھانچے اور شہریوں کی حفاظت کیسے کریں؟ سائبر اسپیس کو محفوظ بنانا ایک پیچیدہ عمل ہے کیونکہ بدنیت عناصر سرحدوں سے ماورا سرگرم رہتے ہیں، اور وسیع نیٹ ورکس میں کمزوریاں تو وقوع پزیر ہوتی رہتی ہیں۔ انفرادی احتیاطی تدابیر کے علاوہ حکومتیں اور صنعتیں اہم بنیادی ڈھانچے کی حفاظت کے لیے کثیر سطحی حکمت عملیاں اپناتی ہیں۔اس کا ایک بنیادی حل بین الاقوامی تعاون ہے جو امریکی ٹیکنالوجی کی قیادت اور سلامتی کے عملی نمونوں سے استفادہ کرتا ہے۔
مئی ۲۰۲۵ء میں ہندوستانی ماہرین کا ایک گروپ امریکی محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے تحت امریکہ گیا تاکہ وہاں کے سائبر دفاع اور انسڈنٹ رِیسپانس (یعنی وہ عمل جس کے ذریعے کوئی ادارہ سائبر سکوریٹی کی خلاف ورزی یا حملے کا پتہ لگاتا ہے اور اس سے نمٹتا ہے) کے ماڈلس اور باہمی تعاون کے مواقع کا مطالعہ کرے تاکہ ہندوستان کی سائبر سلامتی کی صلاحیت کو مضبوط بنا یا جاسکے۔ وفد نے محکمہ خارجہ،تجارت، جنگ اور ہوم لینڈ سکوریٹی کے افسران کے علاوہ تحقیقی اداروں ، تعلیمی مراکز اور مقامی حکومتوں کے ماہرین سے ملاقات کی۔
امریکی ماڈل کا مطالعہ
ٹیک پالیسی تھِنک ٹینک ’دی ڈائلاگ‘ کے بانی کاظم رضوی، اپنی اسٹارٹ اپ کمپنی راہا فِنٹیک میں اسٹریٹجک الائنسز اینڈ ویلنیس آپریشنس کی سربراہ پرگیہ سنگھ اور چنئی میں کیو پی آئی اے آئے ئی میں آپریشنس کی وائس پریزیڈنٹ سواتی کماری اس پروگرام کو امریکہ اور سائبر سکوریٹی پالیسیوں کے عملی مطالعے اور ہندوستان میں ان کی ممکنہ افادیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان کے واشنگٹن، سیئٹل، سان انتونیو اور اورلینڈو کے دوروں نے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ امریکہ میں جدت ثقافت اور ساخت کے امتزاج سے کیسے پروان چڑھتی ہے۔ رضوی کے بقول ’’وہ ریسرچ پراجیکٹ کے لیے فنڈ مہیا کرتے ہیں اور اگر وہ ناکام بھی ہو جائے تو کوئی فکر نہیں کرتے۔ ناکامی بھی ایک کامیابی ہے کیونکہ یہ بتاتی ہے کہ کیا چیز کام نہیں کرتی۔‘‘ وہ مختلف شعبوں کے درمیان خیالات کی آزمائش اور مشترکہ پالیسی سازی کے جذبے سے خاصے متاثر ہوئے۔
کماری کے مطابق، انہیں صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان مضبوط تعاون نے متاثر کیا۔ وہ کہتی ہیں ’’امریکہ کی نمایاں خصوصیت اس کی گہری تحقیقی بنیاد ہے جو تعلیمی اداروں سے جڑی ہوئی ہے۔ وہاں تحقیق صنعت کی ضروریات کے مطابق ہوتی ہے اور تعلیم کے ذریعہ آئندہ پانچ اور دس برسوں میں درکار ہنر مندیاں پیدا کی جاتی ہیں۔‘‘
پروگرام کے دوران سنگھ نے مشاہدہ کیا کہ امریکہ میں پالیسی سازی کے عمل میں شہری حقوق کو ٹیکنالوجی کے ڈیزائن میں شامل کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’سب سے اہم نکتہ نیت کا تھا ، ڈیٹا حکومت کا نہیں بلکہ شہریوں کی ملکیت ہے۔‘‘
ان کا سب سے بڑا مشاہدہ یہ تھا کہ امریکہ اختراع، نظم و نسق اور سکوریٹی پر مبنی ایک مربوط ماڈل کس طرح بناتا ہے۔ وہ وضاحت کرتی ہیں ’’امریکی ایجنسیاں نجی شعبے اور علمی دنیا کے ساتھ حقیقی وقت میں سرگرم تعاون کرتی ہیں ، خواہ وہ سائبر سکوریٹی فریم ورک کی تیاری ہو یا ذمہ دار اے آئی کے لیے رہنما اصولوں کی تشکیل۔‘‘
تکمیلی صلاحیتیں اور مشترکہ اہداف
رضوی کے مطابق، امریکی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کا ہندوستانی بازار اور ہنر کے ساتھ امتزاج ایک مؤثر ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور ہندوستان سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت۔ دونوں کئی لحاظ سے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، تعاون کو ایسے عملی اہداف پر مرکوز ہونا چاہیے جیسے اے آئی کے غلط استعمال کی روک تھام، نظام میں سلامتی کے عناصر کو شامل کرنا، مختلف نظاموں کے باہمی طور پر کام کرنے کی صلاحیت کو یقینی بنانا اور تکنیکی ماہرین کے لیےبازار تک رسائی میں اضافہ کرنا۔
کماری ایک عملی پہلو اجاگر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ امریکہ میں ’زیرو ٹرسٹ آرکیٹیکچر‘ جیسے ساختی حفاظتی نظام اپنائے گئے ہیں، جو اس اصول پر مبنی ہیں کہ ’’کبھی اعتماد نہ کرو، ہمیشہ تصدیق کرو۔‘‘
وہ کہتی ہیں ’’امریکہ نے زیرو ٹرسٹ آرکیٹیکچرس اور مسلسل تصدیقی ماڈلس (ایسے نظام جو صارف یا سسٹم کی شناخت کو مستقل طور پر جانچتے رہتے ہیں) میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے، جو اندرونی خطرات اور کمپرومائزڈ کریڈینشیئلس (یعنی چوری شدہ یا ہیک شدہ لاگ اِن معلومات جیسے پاس ورڈز) کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔ اگر ہندوستان ان ماڈلس کو، خاص طور پر بینکنگ اور ہیلتھ کیئر جیسے حسّا س شعبوں میں، اپنائے تو نمایاں فرق پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘
ایک اور قابلِ تقلید مؤثر امریکی طریقہ عوامی اور نجی شعبوں کے درمیان خطرات کی انٹیلیجنس کا اشتراک ہے۔ مثال کے طور پر، امریکی سائبرسکوریٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکوریٹی ایجنسی حقیقی وقت میں سسٹم کی کمزوریوں اور خطرات (یعنی سائبر حملوں کی مخصوص تکنیکی نشانیاں) کی معلومات بانٹنے کا نظام فراہم کرتی ہے۔ کماری کہتی ہیں ’’میں نے ایک کاؤنٹی میں ’وار روم‘ دیکھا،اگر کوئی الرٹ آتا تو ٹیمیں فوراً متحرک ہو کر باری باری ردعمل دیتیں۔ ہندوستان میں ہمیں بھی ایسا ہی ماڈل درکار ہے، ممکنہ طور پر امریکی ایجنسیوں کے اشتراک سے۔‘‘ ان کا سب سے بڑا مشاہدہ یہ تھا کہ سائبر سکوریٹی اسی وقت مضبوط ہو سکتی ہے جب اسے اجتماعی دفاعی کوشش کے طور پر اپنایا جائے۔
اختراع کو عمل میں ڈھالنا
رضوی کے مطابق، ایسے عملی ماڈلس مستحکم پالیسی ماحول پر منحصر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اختراع کے لیے ایسا ماحول ضروری ہے جو پیش گوئی کے قابل ہو۔‘‘ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ طے شدہ تکنیکی معیارات اسی استحکام کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ وہ امریکہ اور ہندوستان کے تعاون کو ایسے انٹرآپریبل فریم ورکس (یعنی ایسے نظام جو مختلف ٹیکنالوجیوں اور اداروں کے درمیان بآسانی کام کر سکیں) سے جوڑتے ہیں جو معاشی ترقی کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ہندوستان اور امریکہ کو اے آئی کو ایسے انداز میں فروغ دینا چاہیے جو معاشی اور سماجی ترقی، دونوں کو آگے بڑھائے۔‘‘
سنگھ اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ مقامی سطح پر پالیسی کی آزمائشیں بڑے پیمانے پر تبدیلی کے لیے محرک بن سکتی ہیں۔ وہ مثال کے طور پر سیئٹل کی ڈیٹا رائٹس پالیسی کا ذکر کرتی ہیں، جس نے شہر کی سطح پر معلومات کے استعمال اور حقوق کی نئی سمت متعین کی۔ ایسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی تجرباتی کوششیں کس طرح بڑے پیمانے پر پالیسی سازی کو رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔
کماری بین الاقوامی پہلو پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعاون کو ٹھوس اقدامات میں ڈھلنا چاہیے ،جیسے ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرامس اور مشترکہ تحقیقی مراکز کا قیام۔ ان کے مطابق، ایسے اقدامات ٹیکنالوجی کے محفوظ فروغ اور علم کے تبادلے کی رفتار میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔