2028 میں لاس اینجیلس سے کرکٹ ایک صدی سے زائد عرصہ کے بعد پھر جلوہ گر ہوگا۔
ٹِم نیویل
امریکہ میں کرکٹ کا کھیل روز بروز مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ 2028 میں لاس اینجلیس میں ہونے والے اولمپک کھیلوں میں دنیا بھر کے 2.5 ارب شائقین اُس وقت محظوظ ہوں گے جب یہ کھیل ایک بار پھر اولمپکس کا حصہ بنے گا۔
فٹ بال کے بعد کرکٹ دنیا کا دوسرا مقبول ترین کھیل ہے۔ کرۂ ارض کا تقریباً ہر تین میں سے ایک فرد کرکٹ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ 2028 میں 14 سے 30 جولائی تک لاس اینجلیس میں ہونے والی اولمپک کھیلوں میں کرکٹ 128 سال کی غیرحاضری کے بعد واپس آرہا ہے۔ جدید دورکے دوسرے سرکاری اولمپک کھیل 1900 میں پیرس میں ہوئے تھے اور انہی میں کرکٹ کو آخری بار باضابطہ طور پر شامل کیا گیا تھا۔ (اُس وقت صرف دو ٹیموں نے حصہ لیا تھا اور برطانیہ نے فرانس کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا تھا)۔
ایک طویل وقفے کے بعد 2028 کے اولمپکس میں واپس آنے والے دیگر کھیلوں میں بیس بال/سافٹ بال اور لیکروس شامل ہیں، جبکہ فلیگ فٹ بال اور اسکواش پہلی بار اولمپکس میں شامل کیے جا رہے ہیں۔
میزبان ملک ہونے کے ناطے، امریکہ کی مردوں اور خواتین کی کرکٹ ٹیمیں خود بخود اولمپک کھیلوں کے لیے اہل قرار پائیں گی۔ باقی ٹیموں کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا کیونکہ 100 سے زیادہ ممالک کی کرکٹ ٹیمیں بین الاقوامی درجہ بندی میں شامل ہیں، جبکہ اِن میں سے صرف چھ، چھ ٹیمیں ہی کوالیفائی کریں گی۔ گو کہ حتمی فہرست کا اعلان ابھی باقی ہے، تاہم ماہرین کی رائے میں ماضی کی کارکردگی کی بنیاد پر آسٹریلیا، برطانیہ، ہندوستان اور جنوبی افریقہ کے کوالیفائی کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
کرکٹ دنیا کے کئی خطوں میں عام طور پر کھیلا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی 19 ویں صدی میں کرکٹ مقبول تھی، مگر وقت کے ساتھ بیس بال نے اس کی جگہ لے لی۔ 1844 میں امریکہ نے نیویارک میں دنیا کے پہلے بین الاقوامی کرکٹ میچ کی میزبانی کی، لیکن وہ کینیڈا سے ہار گیا۔
اگرچہ آج امریکی اسپورٹس بارز میں ٹی وی پر کرکٹ دیکھنا غیر معمولی بات ہے، لیکن یہ کھیل ملک میں دوبارہ مقبول ہو رہا ہے۔ امریکہ میں 400 سے زیادہ مقامی لیگ ہیں جن میں ہزاروں کھلاڑی شریک ہوتے ہیں، خصوصاً نیویارک، فلوریڈا، کیلیفورنیا اور ٹیکساس میں۔
امریکہ میں کرکٹ کی میجر لیگ کا پہلا سیزن 2023 میں منعقد ہوا، جس میں ’سی ایٹل اورکاس‘ کے بیٹسمین ایرن جونز اور ’ایم آئی نیویارک‘ کے مونانک پٹیل جیسے نمایاں کھلاڑی شامل تھے۔ 2024 میں امریکہ نے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنا مقام مزید مستحکم کیا جب اس نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے مردوں کے ٹی 20 عالمی کپ کی مشترکہ میزبانی کی اور دنیا کی بہترین ٹیموں میں شمار ہونے والی پاکستانی ٹیم کو شکست دے کر تاریخ رقم کی۔
اس کے باوجود، بہت سے امریکی کرکٹ سے ناواقف ہیں۔ یہ کھیل کئی حوالوں سے بیس بال سے مشابہ ہے—دونوں میں بیٹنگ اور فیلڈنگ شامل ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کرکٹ بیضوی میدان میں کھیلا جاتا ہے، جہاں دو بیٹسمین ہوتے ہیں۔ پِچ کے دونوں سروں پر لکڑی کی تین تین وکٹیں نصب ہوتی ہیں۔ بالر گیند پھینک کر وکٹ گرانے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ بیٹسمین گیند کو وکٹوں سے ٹکرانے سے روکتا ہے۔ گیند مارنے (اور بلّے باز کا اسے مارنے کے) کے بعد دونوں بیٹسمین وکٹوں کے درمیان دوڑ کر رن بناتے ہیں۔ اگر بالر وکٹ گرا دے، فیلڈر کیچ پکڑ لے یا رن کے دوران وکٹ پر گیند لگا دے تو بیٹسمین آؤٹ ہو جاتا ہے۔
اگرچہ کرکٹ کے میچ مکمل ہونے میں کئی دن لگ سکتے ہیں، تاہم اولمپکس میں یہ کھیل تیز رفتار اور ٹی وی ناظرین کے لیے موزوں فارمیٹ میں کھیلا جائے گا تاکہ نئے شائقین کو متوجہ کیا جا سکے۔ امریکی کرکٹروں کے لیے دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے خلاف کھیلنے اور ملک میں اس کھیل کو مزید فروغ دینے کا یہ ایک نادر موقع ہوگا۔اور یہ خود ایک بڑی کامیابی ہے۔
مونانک پٹیل، جنہوں نے 2024 میں امریکی ٹیم کی قیادت کی، نے Olympics.com کو بتایا ’’بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ورلڈ کپ ہوتا ہے اور اب اولمپکس شامل ہونے جا رہے ہیں۔ اس سے کرکٹ کے فروغ میں یقینی طور پر مدد ملے گی۔‘‘
ٹِم نیویل ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔