• News
  • »
  • کاروبار
  • »
  • کواڈ تعاون کے ذریعہ ہنرکا پروان چڑھانا

کواڈ تعاون کے ذریعہ ہنرکا پروان چڑھانا

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Aug 06, 2025 IST     

image
 
آشوتوش دت شرما کے آئی وی ایل پی کے تجربے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کواڈ کا باہمی تعاون ہند۔ بحرالکاہل خطے میں اہم ٹیکنالوجیوں کے شعبے میں تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کرنے کی کوششوں کو کس طرح تقویت دے رہا ہے۔
 

ڈاکٹر سیّد سلیمان اختر
 

ان دنوں اکثر ممالک مصنوعی ذہانت ، روبوٹِکس(روبوٹ بنانے، چلانے، اور اس کے افعال کو کنٹرول کرنےکا علم و فن یعنی فنِ روبوٹ سازی) اور سائبر سکوریٹی (کمپیوٹر اور ڈیجیٹل نیٹ ورک کی سلامتی)جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور ہندوستان اپنے کواڈ شرکاء ممالک آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر افرادی قوت پیدا کرنے کے لیے اس اشتراک کو  مزید مضبوط کرنے کی جانب گامزن ہیں۔ ان کاوشوں میں جامعات ،صنعتوں اور حکومتوں سے تعاون شامل ہیں تاکہ ہند ۔ بحرالکاہل خطے میں  مستقبل کے  لیے افرادی قوت تیار کی جاسکے۔ اس  تعاون کی ایک مثال امریکی محکمہ خارجہ کا  بین الاقوامی وزیٹر لیڈر شپ پروگرام (آئی وی ایل پی) ہے جس کی بدولت اہم اور ابھرتے میدانوں میں پیشہ ورانہ تبادلہ ممکن ہو سکا ہے۔
 
 آئی وی ایل پی امریکی محکمہ خارجہ کا بنیادی پیشہ ور تبادلہ پروگرام ہے جس کے تحت شرکاء مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے امریکی اور عالمی قائدین سے دیر پا تعلقات قائم کرتے ہیں۔ 2024میں آئی ہب فاؤنڈیشن برائے کوبوٹِکس (آئی ایچ ایف سی) کے سی ای او آشو توش دت شرما نے ’’ کواڈ کے تحت اہم اور نئی ٹیکنالوجیز کے لیے ماہر افرادی قوت کی تیاری‘‘کے عنوان سےمنعقد آئی وی ایل پی میں شرکت کی۔ اس تجربےنے شرما کے  مستقبل کے لیے افرادی قوت تیار کرنے کے لیے عالمی تعاون کی اہمیت اور ضرورت کے نظریے کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ 
 
اختراعی بنیاد
 
کوبو ٹِکس یعنی کولیبریٹوروبوٹِکس سے ایسی ٹیکنالوجیاں مراد ہیں جن میں انسان اور روبوٹس ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ ایک منفرد میدان ہے جس میں مختلف جدید ترین ٹیکنالوجیوں کا انضمام ہوتا ہے۔ 
 
شرما وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ آئی ایچ ایف سی کا ہدف  کوبوٹکس کے میدان میں تحقیق، اختراع پردازی اور اسٹیم شعبہ جات  )سائنس ،ٹیکنالوجی ،انجینئرنگ اور ریاضی(کوفروغ دینا ہے۔فاؤنڈیشن  طلبہ اور اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے لیے اے آئی اور مشین لرننگ جیسی ٹیکنالوجیوں میں فیلو شپ ، طلبہ کے لیے سرپرستی اور انٹرن شپ پروگرام ، نیز نوخیز کمپنیوں کے لیے ہنر مندی کو فروغ دینے والے ورک شاپ کے ذریعہ’ ڈیپ ٹیک وینچرس‘(اعلیٰ سائنسی ٹیکنالوجی پر مبنی کاروباری منصوبے) اور کاروبار اور تحقیق کو فروغ دیتا ہے۔‘‘
 
آئی ایچ ایف سی ہندوستان میں اختراعی نظام کو اعلیٰ سائنسی ٹیکنالوجی پر مبنی کاروباری منصوبے اور تعلیمی پروگراموں کے ذریعہ سے وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس وقت فاؤنڈیشن تحقیق میں مصروف 38ایسی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی مدد کررہی ہے جو جدید ترین ٹیکنالوجیاں تیار کررہی ہیں جن سے معاشرے میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے۔قائم شدہ نوخیز کمپنیوں کے علاوہ آئی ایچ ایف سی اسکولوں میں اسٹیم آؤٹ ریچ(سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کی مہم ) کا کام کرتی ہے تاکہ کوبوٹِکس اور ٹیکنالوجی میں مستقبل کو لے کر اسکولی بچوں میں شروع ہی سے ذہن سازی کی جاسکے اور مستقبل کی افرادی قوت تعمیر کی جاسکے۔
 
سوچ اور زندگی بدلنے والا عالمی تجربہ
 
آ ئی وی ایل پی میں شرکت سے شرماکو اس امر کا اندازہ ہوا کہ دنیا کے مختلف ممالک اہم ٹیکنالوجیوں کے شعبے میں افرادی قوت پیدا کرنے کے  لیے کیا اقدام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’ آئی وی ایل پی ایک  زندگی تبدیل کردینے والا تجربہ تھا۔ یہ ایک بین علاقائی پراجیکٹ تھا جس میں آسٹریلیا ، ہندوستان اور جاپان کے باشندوں نے شرکت کی۔ اس سے ہمیں یہ جاننے کا موقع ملا کہ امریکہ کس طرح اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے میدان میں کام کرنے کے لائق تکنیکی افرادی قوت تیار کررہا ہے۔‘‘
 
اس پروگرام کی بدولت شرکاء کو اس بات کا علم ہوا کہ امریکہ قومی سلامتی اور تکنیکی  مسابقہ آرائی کےشعبوں میں افرادی قوت کیسے تیار کررہا ہے۔ شرما اور دیگر شرکاء نےاے آئی، روبوٹکس ، کوانٹم کمپیوٹنگ اور سائبرسکوریٹی جیسے ابھرتے شعبوں میں براہ راست تجربہ حاصل کیا۔ 
 
پروگرام کے دوران ماہرین اور تنظیموں کے ساتھ تبادلہ خیال سے شرکاء کو کواڈ ممالک کو اس شعبہ میں درپیش مسائل اور ان پر عبور پانے کے لائحہ عمل کے متعلق آگہی حاصل ہوئی۔شرما بتاتے ہیں ’’غور طلب ہے کہ کواڈ ممالک صنعتی ۔ تدریسی ۔ حکومتی اشتراک کو مزید تقویت پہنچانے کے معاملے میں ایک زبان نظر آئے۔‘‘
 
عملی بصیرتیں  
 
آئی وی ایل پی تجربےنے بہت سے اہم لائحہ عمل کا انکشاف کیا جو کہ امریکہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کے لیے  افرادی قوت تیار کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔شرما کے مطابق متعلقہ  تکنیکی تربیت اور سرٹیفکیشن ہی دراصل تعلیمی نصاب اور صنعتی ضرورتوں کے درمیان تفاوت کو ختم کرنے کی کلید ہیں۔شرما بتاتے ہیں ’’ آسانی سے کام آنے والے ماڈل جیسے سی آئی سی (ایسے مراکز جہاں مختلف ادارے مل کر نئی ایجادات اور ٹیکنالوجی پر کام کرتے ہیں)،جن سے سیکھنے کے عمل  میں مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی شراکت کا اہم کردار بھی اس پروگرام کی خصوصیات تھیں۔ ‘‘ اس طرح کی بصیرتوں سے ہندوستان میں افرادی قوت  پیدا کرنے کی آئی ایچ ایف سی کی کاوشوں کو بڑی تقویت ملی۔ 
 
شرما نے اس پروگرام سے  جو کچھ سیکھا اس کا اطلاق سرٹیکفکیشن پروگرام(سرٹیفکٹ جاری کرنے کا عمل) ،لیب تا بازار اقدامات اور  ڈرون ٹیک پارک اور طبّی کوبوٹکس مرکزجیسےمراکز برائے ایکسیلنس  میں کیا۔ فاؤنڈیشن روبوٹکس مقابلہ جات اور شروعاتی کاروباریوں کی امداد سے اطلاقی اختراع پردازی کو فروغ دیتی ہے ،نیز ہنر میں اضافہ ،تربیتی پروگراموں اور مضبوط شراکت داری کو بھی فروغ دیتی ہے جو کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر بھی کارآمد ہے۔
 
تعاون کا  تصور
 
فروری 2025 میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکہ۔ہند  سربراہانِ مملکت بیان میں اس عزم کو دہرایا تھا کہ دونوں ممالک مضبوط بین الاقوامی تدریسی تعاون کے ذریعہ مستقبل کی افرادی قوت تیار کریں گے۔ ان دونوں قائدین نے اشارہ دیا تھا کہ  اعلیٰ تعلیمی  اداروں میں مشترکہ ڈگری پروگراموں، ایکسلنس مراکز اور امریکہ اور ہندوستان کے اہم اعلیٰ تعلیمی اداروں کے آف شور کیمپس(کسی یونیورسٹی یا تعلیمی ادارے کا اپنے ملک سے باہر قائم کیا گیا کیمپس)قائم کرکےتعلیمی تعاون کو مزید وسعت دی جائے گی۔ 
 
شرما کا ماننا ہے کہ کواڈ ممالک کے درمیان تعاون کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔  وہ کہتے ہیں ’’ کواڈ میں مشترکہ تکنیکی تعلیم اور افرادی قوت پیدا کرنے کی بے بناہ صلاحیت موجود ہے جو کہ پورے عالم کے لیے ایک نمونہ ثابت ہوسکتی ہے۔ 
 
کاوشوں کو صحیح سمت دے کر کواڈ ممالک ایک دوسرے کے یہاں کارکردگی کے نمایاں مراکز قائم کرسکتے ہیں، مشترکہ تحقیق کو فروغ دے سکتے ہیں ، طلبہ تبادلہ پروگرام شروع کرسکتے ہیں اور مشترکہ تربیتی معیارات قائم کرسکتے ہیں اور  اپنے پروگراموں کے لیے سرٹیفکٹ بھی جاری کرسکتے ہیں۔‘‘
 
شرما کے مطابق تکنیک کی اخلاقیات ایک اہم شعبہ ہے جو ہند۔ بحرالکاہل خطے میں ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بعید مستقبل کی افرادی قوت تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس طرح کے اشتراکات سے نہ صرف تکنیکی تربیت بلکہ  ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں ذمہ دارانہ اختراع پردازی کے اخلاقی  خاکوں کے خدو خال تیار کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔