دنیا بھر میں سال دو ہزار پچیس کے دوران کئی تنازعات نے سراٹھایا، کئی جنگیں دوبارہ بھڑک اٹھیں۔ لیکن ایک جنگ ایسی رہی جس نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔یہ جنگ کبھی رکتی نظر آئی، کبھی مزید پھیل گئی،اور کبھی امن کی ایک کمزور سی امید دکھا کر پھر اندھیرے میں گم ہو گئی۔غزہ جنگ دو ہزار پچیس میں اپنے تیسرے سال میں داخل ہوئی،اور تباہی، ہلاکتیں اور انسانی المیہ اس قد ر سنگین کا تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
سال دو ہزار پچیس کا آغاز غزہ کے لیے ایک نازک امید کے ساتھ ہوا، مگر یہ امید زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ انیس جنوری کو اسرائیل اور حماس کے درمیان تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کا آغاز ہوا، جس کے پہلے مرحلے کی مدت بیالیس دن مقرر کی گئی۔ اس دوران بڑے پیمانے پر لڑائی میں وقفہ آیا، یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ ہوا اور انسانی امداد تک محدود مگر نسبتاً بہتر رسائی ممکن بنائی گئی۔ اس مرحلے میں پچیس اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے تقریباً انیس سو فلسطینی قیدی رہا کیے گئے، جسے عالمی سطح پر ایک مثبت پیش رفت قرار دیا گیا۔
تاہم یہ امید عارضی ثابت ہوئی۔ بنیادی اختلافات حل نہ ہونے کے باعث جنگ بندی دوسرے مرحلے تک نہ پہنچ سکی۔ مارچ آتے آتے معاہدہ ٹوٹ گیا اور اسرائیل نے فضائی حملے دوبارہ شروع کر دیے۔ غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل مزید محدود ہو گئی، ہلاکتوں میں اضافہ ہونے لگا اور نقل مکانی کی رفتار تیز تر ہو گئی۔ اگست تک حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اقوام متحدہ نے غزہ میں قحط کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ گھروں، اسپتالوں اور امدادی کیمپوں پر حملے جاری رہے اور انسانی بحران تاریخ کے بدترین مراحل میں داخل ہو گیا۔
اسی دوران جنگ کے پھیلاؤ کے خدشات نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد بحیرہ احمر میں سمندری حملے دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا، جس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں حوثی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ مئی میں حوثیوں کی جانب سے اسرائیل پر حملے نے کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ بین گوریون ہوائی اڈے کے قریب میزائل حملے کے باعث متعدد افراد زخمی ہوئے اور فضائی آپریشن عارضی طور پر معطل کرنا پڑا۔ اسرائیل نے اس کے ردعمل میں یمن میں حوثی قیادت کو نشانہ بنایا۔
جون میں کشیدگی ایک نئے اور خطرناک مرحلے میں داخل ہوئی، جب تیرہ سے چوبیس جون تک اسرائیل اور ایران کے درمیان بارہ روزہ جنگ لڑی گئی، جس میں امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ اگرچہ جنگ بندی کے ذریعے لڑائی کا خاتمہ ہوا، مگر خطے میں تناؤ برقرار رہا۔ ستمبر میں ایک اور بڑا بحران اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں ایک قطری سیکیورٹی افسر سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے، جس کے نتیجے میں شدید سفارتی بحران پیدا ہوا۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی امریکہ نے بھی اس کارروائی پر تنقید کی، جس کے بعد وزیر اعظم نیتن یاہو نے معذرت کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ دوبارہ کھولا۔
بالآخر دس اکتوبر کو امریکہ کی جانب سے پیش کیے گئے بیس نکاتی فریم ورک کے تحت ایک باضابطہ جنگ بندی طے پائی، جس کا مقصد مضبوط اور دیرپا امن کا قیام بتایا گیا۔ دسمبر تک، ایک زندہ بچ جانے والے اسرائیلی یرغمال کے علاوہ باقی تمام کو رہا کر دیا گیا، جبکہ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں بھی حوالے کی گئیں۔ اس کے باوجود جنگ بندی بدستور نازک رہی، خلاف ورزیوں کی اطلاعات سامنے آتی رہیں اور غزہ کے جنگ کے بعد کے مستقبل پر اختلافات برقرار رہے۔
نومبر میں اقوام متحدہ نے جنگ کے بعد غزہ میں بین الاقوامی اسٹیبلائزیشن فورس کی تعیناتی کی حمایت کی، تاہم حماس نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ اعداد و شمار اس انسانی المیے کی سنگینی کو مزید واضح کرتے ہیں۔ اگست دو ہزار پچیس کے آغاز تک، اسرائیل کے بیس ماہ طویل حملے میں ستر ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے تھے، جبکہ اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد سترہ سو سے تجاوز کر گئی، جن میں سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے حملے میں مارے گئے بارہ سو افراد شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ ہزاروں افراد لاپتہ ہیں اور بیماری، غذائی قلت اور صحت کے نظام کی تباہی سے ہونے والی اموات کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔
غزہ کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے، اکثر خاندان کئی کئی بار نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ پوری آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے، جبکہ تقریباً ایک چوتھائی افراد قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ستر فیصد سے زائد عمارتیں تباہ یا شدید متاثر ہو چکی ہیں، غزہ کے نصف سے زیادہ اسپتال بند ہیں اور جو فعال ہیں وہ بھی محدود وسائل کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔
یہ جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں رہی۔ مغربی کنارے میں بھی تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا، جہاں اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد ایک ہزار سے زائد فلسطینی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سال اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ بندوقیں بڑی حد تک خاموش ہیں، مگر غزہ میں پائیدار امن اب بھی ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے—ایک ایسا سوال، جس کا جواب صرف جنگ بندی سے نہیں بلکہ دیرپا سیاسی حل اور انسانی بحالی سے ہی ممکن ہے۔