پہاڑی ریاست ہماچل پردیش میں موسلادھار بارش نے تباہی مچا دی ہے۔ بادل پھٹنے اور طوفانی سیلاب سے جان و مال کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس سال 20 جون کومانسون شروع ہونے کے بعد سے اب تک ریاست بھرمیں 300 سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ریاستی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (HPSDMA) کی طرف سے دی گئی تفصیلات کے مطابق، مانسون کے آغاز سے یعنی 20 جون سے 27 اگست تک ریاست بھر میں مرنے والوں کی تعداد 310 تک پہنچ گئی ہے، جس میں سے 158 افراد بارش کی وجہ سے ہونے والے حادثات کی وجہ سے لقمہ اجل بنے۔ جس میں لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب، بادل پھٹنے، بجلی گرنے، مکانات گرنے، دیگر موسم کی وجہ سے پیدا ہونےوالی آفات شامل ہیں۔ سڑک حادثات میں 152 اموات ہوئیں۔ تقریباً 369 افراد زخمی ہوئے۔ 38 افراد لاپتہ ہو گئے۔
موسالادھار بارش سے1،852 جانور اور 25،755پولیٹر برڈ ضائع ہو گئے ہیں۔ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔سڑکوں، پانی کی فراہمی کے نظام اور بجلی کی لائنوں سمیت عوامی بنیادی ڈھانچے کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 2,44,000 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، جب کہ نجی املاک کو پہنچنے والے نقصانات، بشمول مکانات، دکانوں، گائے کے شیڈوں اور فصلوں کی مالیت 18،000 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، جس سے کل تخمینی نقصان 2,63,383 روپے تک پہنچ گیا ہے۔
منڈی ضلع ان بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ وہاں 51 لوگوں کی موت ہو گئی۔ ان میں سے 29 اموات بارش سے ہوئیں اور 22 سڑک حادثات کی وجہ سے ہوئیں۔ کانگڑا میں 49، چمبا میں 36 اور شملہ میں 28 اموات ہوئیں۔ ان بارشوں سے املاک کو بھاری نقصان پہنچا۔ انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔ مکانات تباہ ہوئے۔ سڑکیں اور پل بہہ گئے۔ بجلی اور واٹر سپلائی سکیموں کو نقصان پہنچا۔ سرکاری اور پرائیویٹ املاک کو ہونے والے کل نقصان کا تخمینہ اربوں روپے سے زیادہ ہے۔ 2,62,336.38 لاکھ۔
ریاستی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق بدھ کی شام تک ریاست بھر میں دو قومی شاہراہوں سمیت 582 سڑکیں بلاک کر دی گئی تھیں۔ کلو، منڈی، کانگڑا اور شملہ اضلاع بری طرح متاثر ہوئے۔ صرف کولو ضلع میں حکام نے NH-03 اور NH-305 کو بند کر دیا۔ بجلی کی تقسیم کے 1155 ٹرانسفارمرز کو نقصان پہنچا۔ 346 واٹر سپلائی سکیمیں کام نہیں کر رہیں۔
ایس ڈی ایم اے نے خبردار کیا کہ موسمی انتباہات کے ساتھ، عوامی سہولیات میں مزید رکاوٹ اور ممکنہ ہلاکتوں کے اعداد و شمار کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اہم خدمات کی بحالی کو ترجیح دیں اور پھنسے ہوئے رہائشیوں اور مسافروں کے لیے ہنگامی پناہ گاہیں برقرار رکھیں۔