بہار اسمبلی الیکشن میں بری طرح شکست کھانے کے بعد پیر کو راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے لیڈر تیجسوی یادو کو لیڈر آف اپوزیشن چُن لیا گیا ہے۔ پیر کو پٹنہ میں ہوئی آر جے ڈی کی قانون ساز پارٹی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ اس دوران ہار کے اسباب پر بھی غور کیا گیا۔مہاگٹھبندھن کی قیادت کر رہی آر جے ڈی نے اسمبلی الیکشن میں صرف 25 سیٹیں جیتیں، جبکہ پورا گٹھبندھن مل کر 35 سیٹیں ہی جیت سکیں۔
ایک سیٹ سے چوک جاتے تو لیڈر آف اپوزیشن بننا مشکل ہو جاتا:
کسی بھی ریاست کی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کسی پارٹی کو ایوان کی کل سیٹوں کا کم از کم ۱۰ فیصد حصہ جیتنا لازمی ہوتا ہے۔ بہار اسمبلی انتخابات میں کل 243 سیٹیں ہیں، اس لیے یہاں لیڈر آف اپوزیشن بننے کے لیے کم از کم 25 سیٹیں درکار تھیں۔ اتفاق سے آر جے ڈی نے ٹھیک 25 سیٹیں جیتیں، جس کی وجہ سے تیجسوی یادو کو لیڈر آف اپوزیشن کی کرسی مل گئی۔ اگر ایک سیٹ بھی کم ہوتی تو تیجسوی صرف ایک عام ایم ایل اے ہی رہتے۔اور ایوان بغیر اپوزیشن لیڈر کے کام کرتا۔
یہ اصول تمام قانون ساز اداروں میں کیسے لاگو ہوتا ہے؟
قائد حزب اختلاف کا عہدہ کافی سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔کیوں کہ یہ حکومت کو متوازن کرنے اور جواب دہی کے لیے زور دیتا ہے۔لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے کسی پارٹی کے پاس کم از کم 55 سیٹیں ہونی چاہئیں۔ دوسری طرف راجیہ سبھا میں، مطلوبہ تعداد تقریباً 25 سیٹیں ہیں، جو کہ سیٹوں کی کل تعداد کی بنیاد پر ہیں۔
قائد حزب اختلاف کا کردار:
قائد حزب اختلاف ہونا ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اس سے جمہوری احتساب مضبوط ہوتا ہے۔ قائد حزب اختلاف اعلیٰ قومی اداروں کے لیے اہم سلیکشن کمیٹیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان میں سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے ڈائریکٹر، سینٹرل ویجیلنس کمیشن کے چیف، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن اور لوک پال کی تقرری شامل ہے۔
2010 میں نہیں ملا تھا یہ عہدہ:
سال 2010 کے بہار اسمبلی الیکشن میں آر جے ڈی کو لیڈر آف اپوزیشن کا درجہ نہیں ملا تھا۔ اس وقت پارٹی نے 168 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا مگر صرف 22 سیٹیں جیت سکی تھیں، جس کی وجہ سے بہار اسمبلی بغیر لیڈر آف اپوزیشن کے چلتی رہی تھی۔