سپریم کورٹ نے صدر اور گورنروں کو بلوں کی منظوری کے لیے آخری تاریخ مقرر کرنے کے معاملے پر طویل سماعت کے بعد آج اپنا فیصلہ سنایا۔ سی جے آئی کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے فیصلہ دیا کہ گورنر بل کو لامحدود عرصے تک روک کر نہیں رکھ سکتے۔ تاہم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ بلوں کے لیے وقت کی حد مقرر کرنا گورنر یا صدر کے اختیارات کی خلاف ورزی ہوگی۔ کورٹ نے کہا کہ گورنر کے پاس صرف تین ہی آپشنز ہیں: وہ بل کو منظوری دے سکتے ہیں، صدر کے پاس بھیج سکتے ہیں یا واپس لوٹا سکتے ہیں۔
وقت کی حد مقرر کرنااختیارات کی خلاف ورزی ہوگی:سپریم کورٹ
کورٹ نے کہا کہ گورنر بلوں کو غیر معینہ مدت تک روک کر نہیں رکھ سکتے، لیکن وقت کی حد لگانا اختیارات کی تقسیم (separation of powers) کو کچلنے کے مترادف ہوگا۔ آئین کے آرٹیکل 200 اور 201 میں لچک رکھی گئی ہے۔ اس لیے کسی وقت کی حد کو گورنر یا صدر پر مسلط کرنا آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ یہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول کے خلاف ہے۔
کورٹ کے فیصلے کی اہم باتیں:
1. ڈیمڈ ایسنٹ' (خود بخود منظوری) کا اصول آئین کی روح اور اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے۔2 منتخب حکومت کو ڈرائیور کی سیٹ پر ہونا چاہیے۔ اس سیٹ پر دو لوگ نہیں بیٹھ سکتے۔ البتہ گورنر کا کردار صرف رسمی نہیں ہو سکتا۔3 سپریم کورٹ آرٹیکل 142 کے تحت بلوں کو منظوری نہیں دے سکتی۔ یہ گورنر اور صدر کے دائرہ کار میں آتا ہے۔4 گورنر کے پاس بل روک کر رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
گورنر کا کردار ٹیک اوور نہیں کیا جا سکتا: کورٹ
کورٹ نے کہا:جب گورنر وزیراعلیٰ کی کابینہ کی مدد اور مشورے سے پابند ہوتا ہے تو ہماری رائے میں دونوں فریق گورنر کے صوابدید پر ایک ہی فیصلے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہمارا متبادل یہ ہے کہ عام طور پر گورنر مدد اور مشورے کے مطابق کام کرتے ہیں اور آئین میں یہ شق ہے کہ کچھ معاملات میں وہ اپنی صوابدید استعمال کر سکتے ہیں۔ کورٹ گورنر کا کردار ٹیک اوور نہیں کر سکتی۔
کیا ہے معاملہ؟
تنازع کی ابتدا تمل ناڈو کی حکومت اور گورنر کے درمیان بلوں کو پاس کرنے میں تاخیر کو لیکر ہوئی تھی۔ 8 اپریل کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ گورنر کے پاس کوئی ویٹو پاور نہیں ہے۔ کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ گورنر کے ذریعے بھیجے گئے بل پر صدر کو تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس کے بعد صدر نے سپریم کورٹ سے 14 سوالات پوچھے تھے، جن پر اب یہ فیصلہ آیا ہے۔