اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے جمعہ کے روز فلسطین کے شمال میں واقع غزہ شہر پر فوجی قبضے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ تجویز اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے دی تھی۔ساتھ ہی یہ اعلان اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل پورے علاقے پر فوجی کنٹرول قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔تاکہ حماس کو ختم کیا جا سکے۔تاہم سیکیورٹی کابینہ کی منظور کردہ اس قرارداد کو مکمل کابینہ کی منظوری درکار ہوگی، جو ممکنہ طور پر اتوار تک مل سکتی ہے۔
غزہ شدید قحط کی لپیٹ میں:
غزہ شدید قحط کی لپیٹ میں ہے۔لوگ خوراک کی کمی کے باعث بھوک سے مر رہے ہیں۔ زندگیاں تباہ ہو رہی ہے۔شدید قحط اور غذائی قلت کے باعث بے گناہ لوگ دم توڑ رہے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے حال ہی میں بتایا کہ بھوک سے مرنے والوں کی تعداد 197 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ پریشان کن ہے کہ ان میں سے 96 بچے ہیں۔ غزہ کو تقریباً دو سال سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔عالمی ماہرین کے مطابق غزہ میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ حماس کو سزا دینے کے نام پر اسرائیل کوغزہ پرجنگ شروع ہوئے 22 ماہ ہو چکے ہیں۔ جسکے بعد سے اسرائیلی فوج فلسطین میں نسل کشی کر رہی ہے۔لا تعداد بچے اور عورتوں کو شہید کر دیا ہے۔موت عام ہو گئی ہے۔خوراک سے پہلے ان تک اسرائیلی ظلم و ستم سے موت پہنچ رہی ہے۔زندہ رہنے کی امید اب ختم ہو نے کی دہلیز پر ہے۔ جسکی عالمی سطح پر تمام امن اور انصاف پسند لوگ خاموش تماشا دیکھ رہی ہے۔
اسرائیلی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 60,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ اور بھی افسوسناک ہے کہ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ کو تقریباً دو سال سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔ حالیہ برسوں میں، اسرائیل ناکہ بندی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے متاثرین تک خوراک کی سپلائی پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سو سے زائد بین الاقوامی اداروں نے کہا ہے کہ غذائیت کی کمی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔
غزہ میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف دو مہینوں میں ان کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں خوراک کا مسئلہ بحران میں بدل رہا ہے۔ دنیا بالخصوص یورپی یونین مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن امدادی گروپوں پر اسرائیل کے حملوں نے سنگین انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔