اسرائیل نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کی حدوں کو پار کر دیا ہے۔غزہ میں زندگی اب لمحوں سے نہیں بلکہ سانسوں سے ناپی جاتی ہے۔ یہاں بچپن کا مطلب قہقہوں کی بجائے ماؤں کے کمزور سینوں پر اپنی بے بسی کو دیکھنا ہے۔ ہسپتالوں کے بستر پر مائیں اپنے معصوم بچوں کو دودھ کی جگہ دال کا پانی پلا رہی ہیں۔ نہ دوا ہے نہ غذا نہ دودھ ہے اور نہ کوئی سننے والا۔خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کی زرد دیواروں کے بیچ ڈاکٹرز بے بسی سے ان سیکڑوں نومولود بچوں کو دیکھ رہے ہیں جو آہستہ آہستہ دم توڑ رہے ہیں۔ ان ننھے بچوں کے لیے علاج اور مصنوعی دودھ مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
غزہ میں خوراک میسر نہیں :
ظالم اسرائیل معصوم لوگوں پر مسلسل حملہ کر رہا ہے ،ظلم کی انتہاء کو پار کر چکا ہے۔غزہ میں لوگوں کو خوراک میسر نہیں۔چھوٹے بچے دودھ پر انحصار کرتے ہیں لیکن وہ بھی بازار میں دستیاب نہیں۔ بچے پانی کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ڈاکٹروں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر اسے مناسب وقت پر دودھ نہ ملا تو یہ مر سکتے ہیں۔ جسکی وجہ سے مائیں پریشانی کی عالم میں بچو ں کو دودھ کے بجائے دیگر اشیاء کھلانے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ غزہ کی ایک ایسی تصویر جو انسانیت کے لیے لعنت ہے۔غزہ کے الجلاء سڑک پر ایک پھٹے پرانے خیمے میں ازھار محمد اپنی تین ماہ کی بیٹی حور کو دودھ کی بجائے دال کا پانی پلانے پر مجبور ہیں۔ننھی حور جو ابھی زندگی دیکھی بھی نہیں ،اسرائیلی ستم کا شکار بن چکی ہیں۔ڈاکٹرز خبردار کر چکے ہیں کہ مناسب غذا نہ ملی تو اس کی جان جا سکتی ہے۔
غزہ میں صورتحال سنگین ہے:
گرچہ اقوام متحدہ نے قابض اسرائیل کو بچوں پر سنگین مظالم کرنے والے ممالک کی سیاہ فہرست میں شامل کیا ہے لیکن مظالم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔بارڈر بند ہیں امداد روک لی گئی ہے اور بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔یہ عمل عالمی فوجداری عدالت کے بنیادی اصول یعنی آرٹیکل آ ٹھ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ غزہ کے ہسپتالوں میں بچوں کی جھلکیاں گویا قیامت کی فلموں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ قحط معصوموں کو نگل رہا ہے اور انسانیت اسرائیلی ظلم و ستم کے تختے پر ٹنگی ہوئی ہے۔معاشی تباہی، بے روزگاری اور محاصرے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔بدحالی کا ایسا عالم جسے دنیا نے کبھی نہیں دیکھا۔