آسام کے اضلاع دھوبری اور گوالپارہ میں ہزاروں غریب مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا کر انہیں جبراً بے دخل کردیا گیا ہے۔ اب متاثرین جن خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، ان کو مسمار کیا جارہا ہے ۔ ان تک خوراک و رسد کی رسائی پر روک لگادی گئی ہے اورلوگوں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ یہ حالات نہ صرف جمہوری اقدار کی پامالی بلکہ انسانیت کے خلاف کھلی بربریت کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ سب کچھ ریاستی وزیر اعلیٰ کے حکم پر ہورہا ہے جو ہندستان کی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ ہے، جس کی مثال ظالم انگریز حکومت کے دور میں بھی نہیں ملتی ۔ان باتوں کا خلاصہ جمعیۃ علما ء آسام کی طرف سے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کو ارسال کردہ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
ریاستی انتظامیہ نے ظلم و جبر کی انتہا کردی
واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی مولانا محمد حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں ایک وفد نے 15 اور 16 جولائی کو آسام کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ہےاور ایک اہم رپورٹ تیار کی ہے ۔مولانا حکیم الدین قاسمی نے بتایا کہ جو کچھ آسام میں ہورہا ہے، اس کا اگر خود پر اطلاق کریں تو زندگی اجیرن محسوس ہوتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ آسام حکومت ان لوگوں کو انسان مانتی ہی نہیں ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی انتظامیہ نے ظلم و جبر کی انتہا کر دی ہے۔
خوراک وپانی کی فراہمی کے مطالبہ پر فائرنگ
گزشتہ شب 17 جولائی کو گوالپارہ کے پائیکان جنگلاتی علاقے میں واقع آشودوبی گاؤں میں پولیس کی فائرنگ سے ایک 17 سالہ پناہ گزیں نوجوان شہید اور تین دیگر شدید زخمی ہو گئے۔ یہ سانحہ اس وقت پیش آیا جب 12 جولائی کو زبردستی بے دخل کیے گئے ہزاروں افراد نے سڑک کھولنے اور خوراک و پانی کی فراہمی کا پرامن مطالبہ کیا۔انتظامیہ نے ظالمانہ طور پر متاثرہ علاقے کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ امدادی تنظیموں کو رسائی کی اجازت نہیں، ہینڈ پمپ اکھاڑ دیے گئے، بیت الخلا کی سہولت ناپید، اور خواتین و بچے پینے کے پانی کے لیے پریشان ہیں۔ حالاں کہ جمعیۃ علماء آسام کی جانب سے کچھ مقامات پر خوراک اور ترپال کی تقسیم کی گئی، لیکن سرکاری محاصرہ کی وجہ سے پہنچنا دشوار ہے۔
گوتم ادانی کے سولر پروجیکٹ کے نام پر بے دخلی
جمعیۃ کے وفد نے دھوبری ضلع کے چراکترا، سنتوش پور،چروا بکرا کا بھی دورہ کیا، جہاں 20000 سے زائد مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ یہاں 5700 ووٹرز اور 3500 خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ انہیں برہمپوترا کے بیچ واقع ایک غیر آباد اور ریتیلی زمین پر منتقل ہونے کو کہا جا رہا ہے۔ لیکن وہاں نہ پانی ہے، نہ سائے کا انتظام، نہ زندگی کی کوئی علامت۔یہ سب کچھ گوتم ادانی کے سولر پروجیکٹ کے نام پر ہو رہا ہے۔ دوسری جانب میڈیا کا ایک حصہ ان بھارتی شہریوں کو بار بار’غیر ملکی بنگلہ دیشی‘ قرار دے کر عوامی ہمدردی ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو شدید تشویش کا باعث ہے۔
حکومت فوری مداخلت کرے:جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ
ایسی صورت حال میں جمعیۃ علماء ہند حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کرتی ہے کہ تمام بے دخل افراد کو فوری طور پر خوراک، پانی، طبی امداد اور رہائش فراہم کی جائے۔راستے کھولے جائیں تاکہ امدادی تنظیمیں متاثرہ علاقوں تک پہنچ سکیں،پولیس فائرنگ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت عدالتی کارروائی کی جائے،متاثرین کو فوری معاوضہ دیا جائے اور متبادل زمین فراہم کی جائے۔
جھوٹے پروپیگنڈے کو روکا جائے
بنگلہ دیشی کے جھوٹے پروپیگنڈے کو روکا جائےاور اقلیتوں کے خلاف جاری ظلم و زیادتیوں کا سلسلہ بند کیا جائے۔جمعیۃ علماء ہند نے اعلان کیا ہے کہ وہ قانونی، انسانی اور عوامی سطح پر ان مظلوموں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی اور ملک کے ضمیر کوجھنجھوڑنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرے گی۔
جمعیۃ علماء ہند کے وفد میں ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ آسام ریاستی جمعیۃ علماء کے جنرل سکریٹری حافظ بشیر احمد قاسمی، ایڈیشنل جنرل سکریٹری مولانا عبدالقادر قاسمی، مولانا محبوب حسن اور مولانا فضل الکریم قاسمی، گوالپارہ ضلع جمعیۃ کے ذمہ داران مفتی سعد الدین قاسمی، مولانا عزت علی، عبد الحی، ابو الکلام، مولانا ابو الہاشم، مولانا ابو طالب، بلاسی پارہ ضلع جمعیۃ کے صدر مفتی یحی، چاپر ضلع جمعیۃ کے صدر حافظ لقمان، کوکراجھار ضلع جمعیۃ کے صدر مفتی ساجد، دھوبری ضلع جمعیۃ کے صدر مولانا عبد المجید وغیرہ بھی شامل تھے۔