اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں محبت، ایثار، قربانی اور وفا کے جو نمونے بھیجے ہیں، ان میں سب سے عظیم اور بلند مثال "ماں" کی ذات ہے۔ ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو انسان کی زندگی کا پہلا سہارا، پہلی درسگاہ اور پہلا محافظ ہوتا ہے۔ ماں کی گود وہ جگہ ہے جہاں سے زندگی کا پہلا سبق سکھایا جاتا ہے، جہاں زبان کھلتی ہے، دل بہلتا ہے، اور روح کو سکون ملتا ہے۔
ماں کی ممتا ایسی نعمت ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔ ماں اپنے بچے کے لیے اپنا آرام، اپنی نیند، حتیٰ کہ اپنی جان تک قربان کر دیتی ہے مگر اولاد پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔ جب بچہ بیمار ہوتا ہے تو ماں رات بھر جاگتی ہے، دعا کرتی ہے، کبھی دوا دیتی ہے، کبھی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتی ہے، اور خود تڑپتی ہے مگر زبان پر شکوہ نہیں لاتی۔
اسلام نے ماں کے مقام کو جتنا بلند کیا ہے، دنیا کا کوئی نظام اس کی مثال نہیں دے سکتا۔ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جنت ماں کے قدموں تلے ہے"
(سنن نسائی)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: "سب سے زیادہ حسنِ سلوک کا مستحق کون ہے؟" آپ ﷺ نے فرمایا: "تمہاری ماں۔" انہوں نے پھر پوچھا: "پھر کون؟" آپ نے فرمایا: "تمہاری ماں۔" تیسری بار پھر یہی جواب ملا، اور چوتھی بار فرمایا: "تمہارا باپ۔"
(صحیح بخاری و مسلم)
یہی نہیں، ماں کی دعاؤں میں ایسی تاثیر رکھی گئی ہے کہ وہ تقدیر کو بھی بدل سکتی ہیں۔ ایک ماں کی دل سے نکلی ہوئی دعا عرشِ الٰہی تک پہنچتی ہے اور ربّ العالمین کو متوجہ کر لیتی ہے۔
افسوس! آج کے دور میں بہت سے لوگ ماں کی قدر نہیں کرتے۔ وہ ماں جس نے اپنی نیندیں قربان کر کے اولاد کو بڑا کیا، وہی ماں بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دی جاتی ہے۔ ایسی بے قدری پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ماں کے ساتھ محبت، ادب، خدمت اور اطاعت کا برتاؤ کریں، ان کے چہرے کو دیکھ کر دعائیں کمائیں، ان کی خدمت کو اپنا فخر سمجھیں اور ان کی رضا کو اپنے رب کی رضا جانیں۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ماں کا سچا خدمت گزار بنائے، ہمیں ان کی دعاؤں کا وارث بنائے، اور جو مائیں اس دنیا سے جا چکی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی قبروں کو جنت کا باغ بنائے۔ آمین۔