بھارت میں نام بدلنےکی سیاست کے دوران تاریخ کو بھی بدلاجارہا ہے۔ ایک بچوں کواسکولی نصاب میں موجود ہ حکومت کے نظریہ کےمطابق تاریخ پڑھائی جائے گی۔ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ کی نئی جاری ہونے والی کلاس ہشتم کی نصابی کتابوں میں مغل حکمرانوں بابر، اکبر اور اورنگ زیب کو سفاک اجتماعی قاتل اور مندر تباہ کرنے والے قرار دیا گیا ہے۔
نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) نے کلاس 8 کی سماجی سائنس کی نصابی کتاب میں قابل ذکر تبدیلیاں کی ہیں، جس میں دہلی سلطنت اور مغل ادوار میں مذہبی عدم رواداری کے حوالے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کتابیں قومی نصاب برائے اسکولی تعلیم، 2023 کے حصے کے طور پر تیار کی گئی ہیں۔ نئی کتاب کےمطابق ظہیر الدین بابر،نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی، اور وہ سب سے سفاک اور ظالم فاتح بادشاہ تھا، اور اس نے اجتماعی قتل کیا۔ انہوں نے کہا کہ اکبر کا دور ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود، روادارتھا۔اورنگ زیب عالمگیر اپنے دور حکومت میں "مندروں اور گردواروں کو گرانے" والا بادشاہ بتایا گیا ہے۔
NCERT نے آٹھویں کلاس کے لیے سوشل سائنس کی کتاب کا پہلا حصہ جاری کیا، 'Exploring Society: Indian and Beyond'۔ اس میں تایخی حکمرانوں کی تفصیل دی گئی ہے۔ جس میں سابق مسلم حکمرانوں کو ویلن کےطورپر پیش کیا جا رہا ہے۔
تاریخی حکمرانوں کی نئی تفصیل
اپ ڈیٹ شدہ نصابی کتاب اب اہم تاریخی شخصیات کو نظر ثانی شدہ انداز میں بیان کرتی ہے۔
بابر کو "ظالم فاتح" کہا گیا ہے۔
اکبراعظم کو " ظلم اور رواداری کا امتزاج" کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اورنگ زیب اپنے دور حکومت میں "مندروں اور گردواروں کو گرانے" والا بادشاہ بتایا گیا ہے۔
تاریخی احتساب پر سیاق و سباق کا نوٹ شامل کیا گیا۔
حالانکہ کتاب میں دستبرداری کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ڈسکلیمر میں کہا گیا ہے کہ ماضی کے واقعات کا ذمہ دار کسی کو نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔ یہ کوشش اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے کہ طلباء ماضی کو حال سے جوڑ کر سماجی کشیدگی پیدا نہ کریں۔
مذہبی عدم برداشت کی مثالوں کودی گئی جگہ
اس کتاب میں واضح طور پر اس وقت کی مذہبی عدم برداشت کی مثالیں شامل کی گئی ہیں۔ مندروں اور تعلیمی مراکز پر حملے، دیہاتوں میں لوٹ اور فوجی مہمات کا ذکر ہے۔ ان واقعات کو تاریخ کے ’سیاہ دور‘ کے طور پر پیش کیا گیاہے۔
این سی ای آر ٹی کا بیان
این سی ای آر ٹی نے ایک بیان میں کہا۔ کہ 'تاریخ میں کچھ تاریک ادوار کے بارے میں بیان کیاگیاہے۔کتاب کا مواد، متوازن اور مکمل طور پر ثبوت پر مبنی ہے۔۔ واضح کیا گیا کہ ماضی کے واقعات کے لیے آج کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے، بہتر مستقبل کے لیے اس سے اہم اسباق حاصل کرنے کے لیے تاریخ کے بارے میں ایماندارانہ نقطہ نظر پر زور دیا گیا ہے،‘‘
مذہبی حلقوں میں سخت رد عمل
این سی ای آرٹی کی نصابی تبدیلیوں نے مختلف مذہبی حلقوں میں سخت رد عمل کو جنم دیا ہے۔ کئی مسلم علما نے ان ترامیم کو تاریخ کی توڑمروڑ قرار دے کر تنقید کنشانہ بنای ہے۔ نقادوں کا ماننا ہےکہ مغل بادشاہوں کی کردار کشی ، فرقہ وارنہ خلیج کو مزید گہرا کرتی ہے اور نوجوان اذہان میں مذہبی تعصب کو جنم دیتی ہے۔ یہ تبدیلی ایک جانب داری اور نفرت کو فروغ دیتی دکھائی دیتی ہے۔ مولانا سلیمان نے کہاکہ اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں تاریخ کو مسخ کر رہی ہیں۔ تاریخ کو توڑ مروڑ کر نئی نسل کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔
زبردستی کی بدنامی
مولانانثار احمد مصباحی نے تبدیلیوں کو زبردستی کی بدنامی قرار دیا۔ اس قسم کے بیانات ماحول کو مزید خراب کرتےہیں۔کانگریس نے کہاکہ نصابی کتاب میں سیاسی مفادات کی بنیاد پر تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ وہیں بی جے پی، نے این سی ای آر ٹی کا خیر مقدم کیا ہے۔ وہیں سیاسی اور تعلیمی حلقوںمیں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔
تاریخ کوتعصب سےپاک ہونا چاہئے
ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تاریخ کوتعصب سےپاک اور تحقیقی بنیادوں پر ہی پڑھایا جانا چاہئے۔ اس طرح کےاقدام سے تعلیم ہم آہنگی،سماجی یکجہتی، ترقی کےبجائے نفرت تفریق کی سمت لےجا سکتی ہے۔ نصاب میں غیر جانداری اورمتوازن کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن لگتا ہےکہ حکومت کا منشا کچھ اور ہی ہے۔ یعنی تعلیمی نصاب کا بھگوا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔