غزہ پر اسرائیل کی بربریت سے ہر انصاف پسند شخص غم اور غصے میں ہے۔اسرائیلی حکومت ظلم کی ہر انتہاء کو پار کر چکا ہے۔معصوم بچے اور خواتین انکے ظلم کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔پوری دنیا اس ظلم پر آواز تو اٹھا رہی ہے۔ مگر ظالم اسرائیل سننے کو تیار نہیں۔وہیں نیوزی لینڈ کے ایوان میں اپوزیشن 'گرین پارٹی' سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن پارلیمنٹ سواربرک نے فلسطین کی حمایت میں کچھ ایسا کہہ دیا کہ انہیں ایوان سے باہر جانا پڑا۔ دراصل گزشتہ سال مارچ کے مہینے میں 'گرین پارٹی' نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں فلسطین کی حمایت میں بل لایا تھا۔ اس بل کے تحت فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔
بل پیش کرنے والی گرین پارٹی کی خاتون رکن پارلیمنٹ سواربرک نے ایوان کے اندر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے میں اپنے ملک کی تاخیر پر تنقید کی اور اسرائیل پر پابندیوں کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے نیوزی لینڈ میں حکمران جماعت کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بل کی حمایت کریں اور اسرائیل کے جنگی جرائم پر پابندیاں عائد کریں۔ اس دوران انہوں نے کچھ ایسا کہا کہ ایوان کے اسپیکر نے انہیں معافی مانگنے یا ایوان سے باہر جانے کو کہا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے فلسطین کے معاملے پر اپنے ملک (نیوزی لینڈ) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے ،اورہماری حکومت ہاتھ پر ہاتھ پکڑے بیٹھی ہے۔ ایم پی سواربرک نے مزید کہا کہ اگر 68 میں سے 6 حکومتی ایم پی ایز میں بھی ہمت ہے تو ہم تاریخ کے دائیں جانب کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ایم پی سواربرک کے اس بیان پر ایوان کے اسپیکر 'جیری براؤنلی' نے کہا کہ یہ بیان قابل برداشت نہیں ہے اور سواربرک کو اپنا بیان واپس لینا ہوگا اور معافی بھی مانگنی ہوگی۔
فلسطین کے حامی ایم پی سواربرک نے اسپیکر کی بات سننے سے انکار کردیا۔ اس پر اسپیکر جیری براؤنلی نے انہیں ایوان سے نکل جانے کا حکم دیا۔ تاہم بعد ازاں اسپیکر براؤنلی نے واضح کیا کہ ایم پی سواربرک بدھ کو ایوان میں واپس آسکتی ہیں لیکن اگر انہوں نے پھر بھی معافی مانگنے سے انکار کیا تو انہیں دوبارہ پارلیمنٹ سےباہر کر دیا جائے گا۔ نیوزی لینڈ نے کہا ہے کہ وہ ستمبر میں فیصلہ کرے گا کہ کیاوہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا یا نہیں۔