جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کا کہنا ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی میں مسلسل تاخیر سے لوگوں کی امیدیں مدھم پڑتی جا رہی ہیں اور اگر یہ عمل مزید مؤخر ہوا تو مایوسی مزید گہری ہوگی۔ اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا: ’’ریاستی درجے کی بحالی کے بارے میں میری امید پہلے دن سے قائم تھی، لیکن اب وہ کچھ کم ضرور ہوئی ہے۔ اگر یہ عمل مزید تاخیر کا شکار ہوا تو ہم میں ناامیدی بڑھ جائے گی۔‘‘۔ ریاستی درجہ بحال ہوگا ابھی بھی امید ہے۔
یونین ٹیریٹری کے تحت حکومت چلانا آسان نہیں
جموں کشمیر کےوزیراعلیٰ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کو اقتدار میں آئے صرف ایک برس ہوا ہے، اور وہ اب بھی پرامید ہے کہ اگر ریاستی درجہ ان کی حکومت کے دور میں بحال ہوا تو یہ ایک خوش آئند پیش رفت ہو گی۔ تاہم، عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ یونین ٹیریٹری کے تحت حکومت چلانا آسان نہیں۔ اگر یوٹی میں کام کرنا آسان ہوتا تو سارے اسٹیٹ یوٹی بنانے کی مانگ کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہاہے۔
اسٹیٹ ہڈ میں کام تیزی سے ہوتا
عمرعبد اللہ وزیر اعلیٰ نے کہا: ’’اگر ریاست ہوتی تو ہم اپنی مرضی سے افسران تعینات کرتے اور کام تیزی سے ہوتا، لیکن یو ٹی میں وزرا اُن افسران کے فیصلوں کے ذمہ دار ہیں جو اُنہیں اعتماد میں لیے بغیر فیصلے کر لیتے ہیں۔‘‘ روکاوٹیں ہیں اس لئے ہم لڑ رہےہیں۔ یاد رہے کہ پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی سابق ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے الگ الگ یونین ٹیریٹریز - جموں و کشمیر اور لداخ - میں منقسم کیا گیا تھا۔اسٹیٹ ہڈ کومرکز نے روکا ہے۔ وہ 28 ممبرکہاں ہیں۔ ان کا موقف کیا ہے۔ ہم کو پتہ چل جاتا ہے۔
راجیہ سبھا الیکشن:کچھ لوگوں نے ایمان بیچ دیا
عمرعبداللہ نےراجیہ سبھا انتخابات کے دوران بعض اراکین اسمبلی کے بی جے پی امیدوار کے حق میں ووٹ دینے پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ لوگوں نے اپنا ایمان بیچ دیا۔‘‘ جموں و کشمیر کےوزیراعلیٰ نے ایسے اراکین کے نام منظر عام پر لائے جانے کا مطالبہ کیا۔ان کے مطابق، بی جے پی کے امیدوار ستیہ پال شرما کو 32 ووٹ ملے جب کہ ان کی پارٹی کے پاس صرف 28 اراکین اسمبلی تھے۔ ’’یہ واضح ہے کہ کچھ اراکین کو راغب کرنے کی کوشش ہوئی، اب اس کا جواب بی جے پی کو دینا ہے۔‘‘ہندوارہ کے رکنِ اسمبلی سجاد لون کی ووٹنگ سے غیرحاضری پر تنقید کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کا ووٹ نہ دینا بی جے پی کے حق میں گیا۔ ’’اگر وہ واقعی کسی فکسنگ کے خلاف تھے تو انہیں ووٹ ڈالنا چاہیے تھا۔‘‘۔
15 فیصد آبادی کو حکومت سے باہر رکھا ہے۔
عمرعبد اللہ نے کہا کہ بی جے پی دوسری پارٹیوں کو بھی اپنے جیسا سمجھ رہی ہے۔ بی جےپی کو غلط فہمی ہے۔ ہم مذہب اور علاقہ دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے۔ بی جے پی ملک کے15 فیصد آباد کو حکومت سے باہر رکھا ہے۔ مرکزی حکومت میں کوئی وزیر نہیں ہے۔ بی جےپی لیڈر پہلے گریباں میں جھانکیں۔ پھر فیصلہ کریں گے۔ مذہب کی سیاست کرتےہیں۔
ملک بھرمیں ہوگا ایس آئی آر
ملک بھر میں ایس آئی آر کرانے کےاعلان پر عمرعبداللہ نےکہاکہ بہارمیں ایس آئی آر کو لیکر خدشات ہیں۔ ایس آئی آر کرانے والوں کو فائدہ ہوگا یا نہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوا۔ پہلے پتہ تو کرلیتے اس کےبعد ملک بھرمیں لاگو کرنے کی بات کرنا بہتر ہوتا۔ عمرعبداللہ نے کہاکہ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو جلدی نہیں کرنا چاہئے۔ ایسالگ رہا ہےکہ ایک الیکشن کمیشن پارٹی کی دباو میں کام کیا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر میں نئی حد بندی سے ایک پارٹی کو فائدہ پہنچایا گیا۔
بی جے پی کے ساتھ خفیہ سمجھوتہ نہیں
عمر عبداللہ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ نیشنل کانفرنس کا بی جے پی سے کوئی خفیہ یا سیاسی سمجھوتہ نہیں۔ ہم پس پردہ بی جے پی کے ساتھ ہیں کہنا غلط ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم نے راجیہ سبھا کی چوتھی نشست پر اپنا امیدوار کیوں اتارا ہوتا؟‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس وہ واحد جماعت ہے جو بی جے پی کا براہِ راست مقابلہ کر رہی ہے، جب کہ دوسری جماعتیں - کانگریس اور پی ڈی پی - نے نگروٹہ کے ضمنی انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کیے۔ مرکز سے یوٹی سے ہے۔ این سی کا بی جےپی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ضمنی انتخابات چیلنج ہے
عمرعبد اللہ نے کہاکہ ضمنی انتخابات ہر حکومت کےلئے ایک چیلنج ہوتے ہیں۔ ہمارے لئے بھی ہیں۔ بڈگام کےعوام اپنے مسائل کے حل اور ترقی کےلئے این سی، کےامیدوار کو کامیاب بنائیں گیں۔ بڈگام کی ترقی سرینگر کے طور پر کرنے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہےکہ جموں کشمیر کی دو سیٹوں، بڈگام اور نگروٹہ میں ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ انتخابی مہم زوروں پر ہے۔