جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا کی انتظامیہ نے 13 جولائی 1931 کو ریاست کے اس وقت کے حکمران ہری سنگھ کے خلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی برسی کے موقع پر لیڈروں کو کسی بھی پروگرام کے انعقاد سے روک دیا تھا، اس سلسلے میں حکمراں نیشنل کانفرنس کے کئی رہنماؤں کو اتوار کو گھروں میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ مرکزی حکومت کے خلاف جارحانہ قدم اٹھاتے ہوئے جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ پیر کو اپنے کابینہ وزراء کے ساتھ نوہٹہ میں شہداء کے قبرستان پہنچے جہاں انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم عبداللہ دیوار پھلانگ کر قبرستان میں داخل ہوے۔
This is the physical grappling I was subjected to but I am made of sterner stuff & was not to be stopped. I was doing nothing unlawful or illegal. In fact these “protectors of the law” need to explain under what law they were trying to stop us from offering Fatiha pic.twitter.com/8Fj1BKNixQ
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) July 14, 2025
منتخب وزیر اعلیٰ کو کیوں ایسا کرنا پڑا
ایک تصویر محض ایک تصویر نہیں ہے بلکہ سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہے کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو کیوں ایسا کرنا پڑا۔ اس موقعہ پرعمرعبدللہ نے ایل جی انتظامیہ اور پولیس کی، انکو آج بھی روکنے پر سخت تنقید کی۔ عمر نے کہا کہ شہیدوں کو گلہائےعقیدت پیش کرنے کے لیے وہ سال کے کسی بھی دن آسکتے ہیں۔
کس قانون کےتحت روکا گیا
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کے حکم پر ہمیں کل فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، سب کو صبح سے ہی گھروں میں نظر بند کر دیا گیا، جب میں نے کنٹرول روم کو بتایا کہ میں یہاں فاتحہ پڑھنے آنا چاہتا ہوں تو چند منٹوں میں میرے گھر کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں اور آج رات 12 بجے تک بغیر کسی کو بتائے میں وہیں رہا۔ انہوں نے ہمیں روکنے کی بھی کوشش کی۔
وہ سمجھتے ہیں ہم ان کےغلام ہیں
عمرعبداللہ نے مزید کہا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے کس قانون کے تحت روکا گیا، وہ کہتے ہیں کہ یہ آزاد ملک ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے غلام ہیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ ہم صرف یہاں کے لوگوں کے غلام ہیں۔ ہم نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ قیادت نے پیرکو مزارِ شہداء اور تیرہ جولائی کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی کی۔ این سی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیرِ اعلیٰ عمر عبدللہ کے ہمراہ پارٹی کے سینئر قائدین نے تیرہ جولائی کے شہداء کی قبروں پر پھول بھی بچھائے ۔ وہیں وزیرِ تعلیم و صحت سکینہ مسعود مزار پر اسکوٹر پر آئی۔
الزامات و جوابی الزامات
تیرہ جولائی پر منتخب سرکار کے نمائندوں کو گھروں میں نظر بند رکھنے کا معاملہ، طول پکڑتا جارہا ہے اور سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی اور اپنی پارٹی کو ایل جی انتظامیہ کی نکتہ چینی کرنے کے بجائے این سی کو موردِ الزام ٹھہرانےپرآڑے ہاتھوں لیا۔ اِدھر بی جے پی نے نیشنل کانفرنس پر قبروں کی سیاست کرنے کا الزام لگایا ۔ واضح رہےکہ 13 جولائی کو جموں و کشمیر میں 'یوم شہدا' کے طور پر منایا جاتا ہے، جسے لیفٹننٹ گورنر کی قیادت میں انتظامیہ نے 2020 میں گزٹڈ تعطیلات کی فہرست سے ہٹا دیا۔ عمر عبداللہ نے ایکس پر لکھا، کتنی شرم کی بات ہے کہ برطانوی راج کے خلاف لڑنے والے حقیقی ہیروز کو آج ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
ایک تصویر محض ایک تصویر نہیں ہے بلکہ سمجھدار کے لئے اشارہ کافی ہے کہ ایک منتخب وزیر اعلیٰ کو کیوں ایسا کرنا پڑا۔ اس موقعہ پرعمرعبدللہ نے ایل جی انتظامیہ اور پولیس کی، انکو آج بھی روکنے پر سخت تنقید کی۔ عمر نے کہا کہ شہیدوں کو گلہائےعقیدت پیش کرنے کے لیے وہ سال کے کسی بھی دن آسکتے ہیں ۔
کس قانون کےتحت روکا گیا
جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کے حکم پر ہمیں کل فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، سب کو صبح سے ہی گھروں میں نظر بند کر دیا گیا، جب میں نے کنٹرول روم کو بتایا کہ میں یہاں فاتحہ پڑھنے آنا چاہتا ہوں تو چند منٹوں میں میرے گھر کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں اور آج رات 12 بجے تک بغیر کسی کو بتائے میں وہیں رہا۔ انہوں نے ہمیں روکنے کی بھی کوشش کی۔
وہ سمجھتے ہیں ہم ان کےغلام ہیں
عمرعبداللہ نے مزید کہا کہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے کس قانون کے تحت روکا گیا، وہ کہتے ہیں کہ یہ آزاد ملک ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے غلام ہیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ ہم صرف یہاں کے لوگوں کے غلام ہیں۔ ہم نے ان کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ قیادت نے پیرکو مزارِ شہداء اور تیرہ جولائی کے شہداء کے لئے فاتحہ خوانی کی۔ این سی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیرِ اعلیٰ عمر عبدللہ کے ہمراہ پارٹی کے سینئر قائدین نے تیرہ جولائی کے شہداء کی قبروں پر پھول بھی بچھائے ۔ وہیں وزیرِ تعلیم و صحت سکینہ مسعود مزار پر اسکوٹر پر آئی۔
الزامات و جوابی الزامات
تیرہ جولائی پر منتخب سرکار کے نمائندوں کو گھروں میں نظر بند رکھنے کا معاملہ، طول پکڑتا جارہا ہے اور سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر تنقید کرنے کا سلسلہ بھی تیز ہو گیا ہے۔ حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے پی ڈی پی اور اپنی پارٹی کو ایل جی انتظامیہ کی نکتہ چینی کرنے کے بجائے این سی کو موردِ الزام ٹھہرانے پر آڑے ہاتھوں لیا ۔ اِدھر بی جے پی نے نیشنل کانفرنس پر قبروں کی سیاست کرنے کا الزام لگایا ۔ واضح رہےکہ 13 جولائی کو جموں و کشمیر میں 'یوم شہدا' کے طور پر منایا جاتا ہے، جسے لیفٹننٹ گورنر کی قیادت میں انتظامیہ نے 2020 میں گزٹڈ تعطیلات کی فہرست سے ہٹا دیا۔ عمر عبداللہ نے ایکس پر لکھا، کتنی شرم کی بات ہے کہ برطانوی راج کے خلاف لڑنے والے حقیقی ہیروز کو آج ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔