سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی مسلسل دوسرے دن سماعت کی۔ عدالت نے مرکزی حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے 7 دن کی مہلت دی ہے اور کہا ہے کہ اس مدت کے دوران وقف املاک میں کوئی نئی تقرری یا تبدیلی نہیں کی جائے گی۔عدالت میں سماعت پر پہلا ردعمل اے آئی ایم آئی ایم سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی طرف سے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وقف ترمیمی ایکٹ کو مکمل طور پر غیر آئینی سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے راحت کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ 'وقف از صارف' کو ہٹایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی کوئی نئی تقرری ہوگی۔
اسد الدین اویسی کا ردعمل
اسد الدین اویسی نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے خود اس ایکٹ کے خلاف درخواست دائر کی ہے اور یہ قانونی جنگ جاری رہے گی۔ اویسی نے پارلیمنٹ میں اور جے پی سی (جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی) میں بھی کھل کر اس ایکٹ کی مخالفت کی تھی۔اویسی نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو آئین کے آرٹیکل 14، 15، 25 اور 26 کی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین تمام شہریوں کو مساوات، مذہبی آزادی اور اپنے مذہبی اداروں کو چلانے کا حق دیتا ہے۔ یہ قانون ان بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
وقف سے متعلق عدالت میں 73 سے زائد درخواستیں
اب تک اس ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں 73 سے زیادہ درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں۔ عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ 5 مئی 2025 کو ہونے والی اگلی سماعت میں صرف 5 درخواستوں کی ابتدائی سماعت کی جائے گی۔ بقیہ درخواستیں بطور درخواست زیر التوا رہیں گی۔آپ کو بتاتے چلیں کہ مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل نے عدالت کو یقین دلایا کہ جب تک جواب داخل نہیں کیا جاتا تب تک کسی وقف کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی کلکٹر کو تبدیل کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ جو حالات پہلے تھے وہی رہیں گے۔