حیدرآباد کی معروف شخصیت و مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہ غیاث الدین بابو خان کا انتقال ہوگیا۔ آج بروز پیز یعنی 25 اگست 2025 کو، اے آئی جی ہاسپٹل گچی باؤلی حیدرآباد میں آخری سانس لی۔ نماز جنازہ 25 اگست کو بعد نمازعشا یا اس کے کچھ دیر بعد مسجد بقیع روڈ نمبر 12 بنجاراہلزمیں ادا کی جائےگی۔ وہ خان بہادر بابو خان کےفرزند اور متحدہ آندھراپردیش کےسابق وزیر بشیر الدین بابو خان کےبھائی تھے۔حیدرآباد دکن کی تاریخ ہمیشہ اُن شخصیات سے روشن رہی ہے جنہوں نے دولت و شہرت کے بجائے خدمت اور بھلائی کو اپنی پہچان بنایا۔ انہی میں ایک معتبر نام ہے غیاث الدین بابو خان کا، جنہیں شہر کی سماجی و تجارتی زندگی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
ابتدائی سفراور تجارتی کامیابی
غیاث الدین بابو خان نے اپنے عملی سفر کا آغاز تعمیرات کے شعبے سے کیا۔ اُن کی کمپنی بابو خان کنسٹرکشن نے نہ صرف شہر کے آسمان کو بلند و بالا عمارتوں سے سجایا بلکہ جدید طرزِ تعمیر کو نئی جہت دی۔ حیدرآباد کی کئی شاندار عمارتیں اور کمرشیل کمپلیکس آج بھی ان کی کاروباری بصیرت اور معیار پسندی کا ثبوت ہیں۔
تعلیمی سماجی انقلاب
غیاث الدین بابو خان نے حیدرآباد زکوۃ اینڈ چیریٹٰبل ٹرسٹ اورغیاث الدین بابو خان چیریٹٰبل ٹرسٹ اور حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ آف ایکسیلینس کےذریعہ ملک کےمختلف علاقوں میں تعلیمی اور سماجی انقلاب پیدا کیا۔ ہزار غریب مستحق ہونہار طلبا و طالبات کو اسکالر شپ فراہم کرکے اعلیٰ تعلیم فراہم کی۔
غریب طلبہ کے لیے وظائف اور اسکولوں کی تعمیر میں تعاون
مختلف مساجد اور دینی اداروں کی تعمیر و مرمت میں حصہ
یتیم خانوں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کے لیے مالی امداد
اسپتالوں اور میڈیکل کیمپس کے لیے عطیات اور فنڈز
نوجوانوں بیواؤں کی دوبارہ شادی کی مہم سے سینکڑوں گھر آباد
رمضان میں راشن اور ضروری اشیاء تقسیم
خدمتِ خلق کا جذبہ
بابو خان نے تجارت میں کامیابی کو کبھی اپنی ذات تک محدود نہ رکھا۔ ان کا ماننا تھا کہ دولت کی اصل قیمت تب ہے جب وہ دوسروں کے کام آئے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے تعلیم، صحت اور فلاحی شعبوں میں بڑے پیمانے پر خدمات انجام دیں۔ مشترکہ ریاست اندھراپردش کے چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے اس اسکیم کو ساری ریاست میں اسکالر شپ اسکیم کو نافذ کردیا۔ تلنگانہ میں تلنگانہ مائناریٹیز ریسڈینشل اسکولس کا قیام بھی ان کی کوششوں سے ہوا۔
وراثت اور یادگار
آج جب شہر کے لوگ تعمیرات اور سماجی خدمات کی بات کرتے ہیں تو غیاث الدین بابو خان کا نام احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے قائم کردہ پروجیکٹس، ان کے ادارے اور ان کی خدمات حیدرآباد کے لیے ایک انمٹ ورثہ ہیں۔ان کی شخصیت نرمی، انکساری اور خوش اخلاقی سے مزین تھی۔ وہ اپنے کام کرنے والے مزدوروں اور عام لوگوں کے ساتھ بھی اسی عزت و احترام سے پیش آتے جس طرح شہر کے بڑے معززین کے ساتھ۔ یہی رویہ انہیں عوام میں بے حد مقبول بناتا رہا۔ان کی شخصیت نرمی، انکساری اور خوش اخلاقی سے مزین تھی۔ وہ اپنے کام کرنے والے مزدوروں اور عام لوگوں کے ساتھ بھی اسی عزت و احترام سے پیش آتے جس طرح شہر کے بڑے معززین کے ساتھ۔ یہی رویہ انہیں عوام میں بے حد مقبول بناتا رہا۔