ہند۔ بحرالکاہل محفوظ و پائیدار انفراسٹرکچر پروگرام بندرگاہوں کی سلامتی اور خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے جس کا مقصد ہند۔بحرالکاہل خطے کے رہنماؤں کو باہمی تعاون اور علم کی شراکت کے ذریعے تربیت دینا ہے۔
چاروی اروڑا
بندرگاہیں کسی بھی ملک کی تجارت، ترقی اور اس کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہند ۔بحرالکاہل خطے میں یہ صرف مال برداری کے دروازے نہیں بلکہ معاشی سرگرمیوں ، ڈیجیٹل روابط ، اعدادو شمار کے تبادلے اور خطے کے استحکام کے مراکز بھی ہیں۔ سائبر حملوں اور سیاسی کشیدگی جیسے خطرات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اب ضرورت ہے کہ ممالک بندرگاہوں کو زیادہ ہوشیاری ، تحفظ اور دور اندیشی کے ساتھ تعمیر کریں اور چلائیں۔
اسی ضرورت کے مد نظر امریکی محکمہ خارجہ نے کواڈ انفرا سٹرکچر فیلو شپ کے تحت ہند۔ بحرالکاہل محفوظ اور پائیدار انفراسٹرکچر پروگرام شروع کیا جس میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے خطے کے آٹھ دیگر ملکوں کے ماہرین کے ساتھ مل کر امریکی بندرگاہی ماہرین ، منصوبہ سازوں اور سائبر سکوریٹی ٹیموں کے ساتھ براہ راست کام کیا۔ان ماہرین کا مشن یہ تھا کہ وہ یہ سیکھیں کہ امریکہ کس طرح اپنے اہم اداروں اور نظاموں کی حفاظت کے ساتھ ان کی کارکردگی اور پائیداری کو بہتر بناتا ہے۔ یہ پروگرام امریکی حکومت کی ہند۔ بحرالکاہل خطے کے لیے مجموعی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ آئی پی ایس ایس آئی پی کے ذریعے امریکہ ایسے علاقائی رہنما تیار کررہا ہے جو یہاں سیکھی گئی باتوں کو اپنے ملکوں میں نافذ کرسکیں۔یہ اسباق صرف نظریات دستاویز نہیں بلکہ عملی منصوبے میں جو مختلف خطوں کے درمیان براہ راست تقسیم کیے جارہے ہیں۔
اپنے آزمائے ہوئے فریم ورک اور عملی طریقے شیئر کرکے امریکہ اپنے شراکت دار ملکوں کو یہ سکھا رہا ہے کہ بندرگاہوں کو کیسے مضبوط بنایا جائے اور آنے والے چیلنج سے کیسے نمٹا جائے۔ پوجا بھٹ، وویک مشرا، راہل پون کمار اور چیم یودون جیسے فیلوز کے لیے یہ صرف ایک تکنیکی تربیت ہی نہیں تھی بلکہ یہ امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعاون کو گہرا کرنے کی ایک نئی راہ بھی تھی۔ اب ان ماہرین کی حاصل کردہ بصیرتیں ہندوستان کی بندرگاہی پالیسی کو ملک کے اندر اور پورے ہند۔ بحرالکاہل خطے میں نئی سمت و رفتار دے رہی ہیں۔
امریکی بندرگاہوں کے تجربات سے سیکھنا:
پروگرام کے دوران شرکاء نے امریکہ کی اہم بندرگاہوں( لاس اینجلس، لانگ بیچ، نیو اورلیز، بوسٹن اور سیئٹل ) کا دورہ کیا۔ انہوں نے امریکی اہلکاروں ، بندر گاہی عملے اور سائبر سکوریٹی ماہرین سے ملاقات کی۔ان دوروں سے انہیں یہ جاننے کا موقع ملا کہ امریکہ کی مصروف بندرگاہیں کس طرح مؤثر انداز میں چلائی جاتی ہیں۔ پوجا بھٹ، جو نئی دہلی کے سینٹر فار ایئر پاور اسٹڈیز میں وزیٹنگ فیلو ہیں، نے بتایا کہ ان تجربات نے ہندوستان میں ان کے کام کو کس طرح نئی سمت عطا کی۔ وہ بتاتی ہیں ’’ اس پروگرام کی تکمیل کے فوراً بعد میں نے ایک رپورٹ تیار کی اور اسے وزارتِ جہاز رانی سمیت ان تمام اداروں کو بھیجا جو سمندری معاملات پر کام کررہے ہیں ۔ اس رپورٹ میں پائیدار ترقی، سائبر سکوریٹی اور بندرگاہوں کو ایک بڑی کمیونٹی کے لیے اہم سماجی اور ثقافتی مقام کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کی کوششیں صرف سرکاری سطح تک محدود نہیں رہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’ میں نے اپنے آئی پی ایس ایس آئی پی تجربات کو صرف تحقیقی اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ اپنے طلبہ کو پڑھاتے ہوئے بھی ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ‘‘ نتھلا پتی جو اڈانی پورٹس اینڈ اسپیشل اکونامک زون میں ایسوسی ایٹ منیجر ہیں کہتے ہیں کہ اس پروگرام نے انہیں یہ سیکھنے کا موقع دیا کہ دنیا کے بہترین طریقے عملی سطح پر کس طرح اپنائے جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق’’ میں نے اس پروگرام سے حاصل شدہ علم کو دو حصوں میں تقسیم کیا — ایک، روزمرہ کام کے طریقے، اور دوسرا، پالیسی سازی میں رہنمائی کے نقطۂ نظر۔ ہم پہلے ہی اپنے حفاظتی اقدامات کا موازنہ عالمی حفاظتی اقدامات سے کرچکے ہیں ۔ اس طور پر یہ پروگرام میرے لیے یہ سمجھنے کا ذریعہ بنا کہ امریکہ میں ان چیزوں کا نفاذ کس طور پر کیا جاتا ہے۔ ‘‘
بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت اور سلامتی:
بہت سے فیلوز کے لیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ بندرگاہ کی مؤثر کارکردگی اور اس کی سلامتی آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ مشرا جو آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن سے تعلق رکھتے ہیں کہتے ہیں ’’ان دوروں نے یہ بات واضح کر دی کہ بنیادی ڈھانچے کی مؤ ثریت ، سلامتی اور مضبوطی ایک دوسرے سے مکمل طور پر جڑے ہوئے ہیں ، کوئی ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ ‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کی بندرگاہیں اب زیادہ تر ڈیجیٹل نظاموں پر چل رہی ہیں۔ ان کے مطابق ’’ آج بندرگاہوں کا بنیادی ڈھانچہ ڈیجیٹل نظاموں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یہ کام کی رفتار اور صلاحیت کو تو بڑھاتا ہے مگر ساتھ ہی سائبر حملوں کے خطرات میں بھی اضافہ کرتا ہے۔‘‘
سائبر کمانڈ سینٹر کا دورہ ان کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ تھا۔ مشرا بتاتے ہیں ’’ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ امریکی بندرگاہوں پر روزانہ کتنے سائبر حملے ہوتے ہیں۔ اس تجربے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سائبر سکوریٹی اور قومی بنیادی ڈھانچے کی سلامتی آپ میں مکمل طور پر جڑے ہوئی چیزیں ہیں۔ ‘‘
بندرگاہوں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانا:
اگرچہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی سے مضبوط ہیں مگر پروگرام میں شامل فیلوز نے مشاہدہ کیا کہ بحری تعاون کی وسعت کے امکانات موجود ہیں۔ مشرا کے مطابق ’’ ہم نے جا نا کہ امریکہ کی کچھ اہم بندرگاہیں (لاس اینجلس اورلانگ بیچ) چین کی بندرگاہوں کے ساتھ ’سسٹر پورٹ‘ معاہدہ رکھتی ہیں جب کہ ہندوستان کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ‘‘ اس لیے مشرا کے خیال میں ’’ ہندوستان اور امریکہ کو چاہیے کہ وہ بندرگاہوں کی جدید کاری ، ٹیکنالوجی کے استعمال ، سائبر سکوریٹی اور معلومات کے تبادلے جیسے شعبوں میں باضابطہ تعاون کے لیے ’سسٹر پورٹ‘ معاہدوں کو فروغ دیں۔
نتھلاپتی کے لیے اصل اہمیت طویل مدتی تعاون کی ہے۔ ان کے مطابق ’’ میری سب سے بڑی سیکھ یہ تھی کہ ہندوستان اور امریکہ کو بنیادی ڈھانچے کے میدان میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ جب دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور معیشت کا تعلق گہرا ہو رہا ہے، تو ایسے میں بنیادی ڈھانچہ خاص طور پر سمندری شعبہ تعلقات کی بنیاد بنتا جارہا ہے۔ ‘‘
بھٹ کہتی ہیں کہ بندرگاہیں صرف تجارتی مقاصد کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ وہ کمیونٹی کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق ’’ لاس اینجلس ، لانگ بیچ اور نیو اورلینز کی بندرگاہوں پر بنائے گئے عوامی مقامات دیکھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ بندرگاہوں کو ایسے مقامات کے طور پر بھی بنایا جانا چاہیے جہاں عام لوگ آکر سمندر سے تعلق محسوس کریں ، نہ کہ وہ صرف وہاں تجارتی سرگرمیوں کے لیے یکجا ہوں۔ ‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’ جب انسان سمندر سے براہِ راست جُڑتا ہے، تو اس کا نقطۂ نظر بدل جاتا ہے۔ایسے مقامات (جیسے واٹر فرنٹ پارک، ثقافتی نمائشیں اور تعلیمی مراکز) لوگوں کو سمندری امور کے بارے میں شعور دیتے ہیں اور انہیں ساحلی ترقی کے عمل کا حصہ بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔
پائیدار نظام کی تشکیل:
امریکی بندرگاہوں نے صرف ٹیکنالوجی میں مہارت نہیں دکھائی، بلکہ انتظامی حکمتِ عملی میں بھی مثالی کارکردگی پیش کی۔ یوڈون جو نئی دہلی میں نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن سے وابستہ ہیں کہتی ہیں ’’ بندرگاہ کی انتظامیہ، مقامی حکومتیں اور وفاقی ادارے سبھی نے یہ واضح کیا کہ پیشگی منصوبہ بندی ، سائبر سکوریٹی کے لیے تیاری اور کمیونٹی سے روابط کس قدر اہمیت کی حامل چیزیں ہیں۔ ‘‘ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان سمیت پورا ایشیائی خطہ اس طرز عمل سے سیکھ کر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
یوڈون کا کہنا ہے ’’ سائبر سکوریٹی ، بنیادی ڈھانچے کا نظم و نسق اور بحری رابطے میں آپس میں مکمل طور پر مربوط ہیں ۔ اگر کسی ایک پہلو میں کمزوری ہو تو پورا نظام متاثر ہو سکتا ہے ۔‘‘ ان کے مطابق’’ اس پروگرام سے ایک اہم سبق یہ ملا کہ علاقائی سطح پر تعاون اب وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ ‘‘