جامع مسجدسری نگر میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے میر واعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے سڑے گَلے گوشت کے اسکینڈل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ۔ میرواعظ نے کہا کہ حکام کی جانب سے مکمل تحقیقات کی یقین دہانیوں کے باوجود اس سنگین معاملے کے حوالے سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہو پا رہا ہے۔ ’’اس کے پیچھے کون لوگ ہیں، یہ کاروبار کب سے چل رہا ہے، کیا کوئی گرفتاری ہوئی ہے؟‘‘ میرواعظ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’’اس حوالے سے لوگوں کی تشویش اور اضطراب کو دور کرنے کے لیے اس سب کو پبلک ڈومین میں لانے کی ضرورت ہے۔‘‘جس نے لوگوں کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے اور گزشتہ دو ہفتوں سے زیادہ دنوں سے بڑے پیمانے پر بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
کشمیر کواپنے ذبح خانوں کی ضرورت
میرواعظ کشمیر نے زور دے کر کہا کہ کشمیر کو اپنے ذبح خانوں کی ضرورت ہے جہاں مناسب حفظان صحت، اسلامی رہنما خطوط اور خوراک کی حفاظت کے اقدامات کا سختی سے مشاہدہ کیا جا سکے۔ میرواعظ نے حکومت سمیت تاجر برادری - دونوں کو ان سہولیات کو قائم کرنے کے لیے تیار رہنے کا مشورہ دیا ’’کیونکہ عوام اب، بغیر جانچ کے باہر سے آنے والی اشیاء خورونوش (خاص طور پر گوشت، چکن) پر آنکھ بند کرکے اعتماد نہیں کر سکتے۔‘‘
7 رکنی علماء کی کمیٹی تشکیل
سرینگر میں گزشتہ روز میرواعظ نے متحدہ مجلس عمل کے منعقدہ اجلاس کے حوالہ سے کہا: ’’اس مسئلے پر غور و خوض کے لیے 7 رکنی علماء کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ اور ایم ایم یو کے پاس پہلے سے ہی ایک حلال سرٹیفیکیشن بورڈ موجود ہے، جسے اب اسلامی معیارات کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے وسیع اور مضبوط کیا جائے گا۔‘‘میرواعظ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’ایم ایم یو اس معاملے میں حکومت کے ساتھ حلال کھانے کے اسلامی کردار کو برقرار رکھنے اور اپنے لوگوں کی صحت اور اعتماد کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وادی کشمیر میں 80 کوئنٹل سے زائد غیر معیاری اور ناقابل استعمال، سڑا ہوا گوشت ضبط کرکے تلف کیا گیا جبکہ مزید کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔ وہیں بعض تاجرین نے قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے از خود سڑکوں، ندی نالوں یا جہلم کے کناروں پر سڑا ہوا سینکڑوں کوئنٹل گوشت، چکن پھینک دیا ہے۔