سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں جوڈیشل سروس میں بھرتی کے لیے تین سال کی قانونی مشق کو لازمی قرار دیا ہے۔اس فیصلے کے بعد امیدواروں کے لیے سول جج (جونیئر ڈویژن) کے امتحان میں شرکت سے قبل کم از کم 3 سال کی قانونی پریکٹس لازمی ہو گی۔چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح نے قانون گریجویٹس کی براہ راست بھرتی کے اصول کو مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنا یا۔
زیر التوا بھرتیاں نظرثانی شدہ قوانین کے ساتھ آگے بڑھیں گی : سپریم کورٹ
چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ جیسا کہ ہائی کورٹ کے حلف ناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاء گریجویٹس کی براہ راست تقرری نے بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں، اس لیے ہم ہائی کورٹ سے متفق ہیں کہ کم سے کم پریکٹس ہونی چاہیے۔امیدواروں کے پاس 10 سال کا تجربہ رکھنے والے وکیل کا ثبوت اور معاون ہونا ضروری ہے اور تمام ریاستی حکومتیں سول جج کے قوانین میں ترمیم کریں گی۔اس طرح کی بھرتیاں جو زیر التواء تھیں اب نظر ثانی شدہ قواعد کے مطابق آگے بڑھیں گی۔
کیا ہے معاملہ؟
میڈیا رپورٹ کے مطابق ، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 2002 میں جوڈیشل سروس رولز میں ترمیم کی تھی، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ہائی کورٹ نے ترمیم کے ذریعے یہ لازمی قرار دیا تھا کہ جوڈیشل سروس کے امتحانات میں شرکت کے لیے اہل امیدواروں کے پاس تین سال کی قانونی مشق ہونی چاہیے۔بار کونسل آف انڈیا اور کئی ریاستی بار کونسلوں نے اس کی توثیق کی ہے۔عدالتی نظام کی کارکردگی اور مسابقت کو برقرار رکھنے کے لیے عدالتی کام کا عملی تجربہ انتہائی ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ 'آل انڈیا ججز ایسوسی ایشن' کی عرضی پر دیا۔
سپریم کورٹ نے کیا کہا؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا کہ پریکٹس کی مدت انرولمنٹ کی تاریخ سے مانی جا سکتی ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس حکم کا اطلاق ہائی کورٹس میں پہلے سے کی گئی تقرریوں پر نہیں ہوگا اور یہ شرط صرف مستقبل میں ہونے والی تقرریوں پر لاگو ہوگی۔ شرط کو پورا کرنے کے لیے، امیدوار کو ایک سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا جو کسی سینئر ایڈووکیٹ کی طرف سے جاری کیا گیا ہو جس نے 10 سال تک پریکٹس کی ہو یا کسی نامزد عدالتی افسر کی طرف سے جاری کیا گیا ہو۔ اگر کوئی وکیل سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں پریکٹس کر رہا ہے تو اسے سپریم کورٹ میں 10 سال تک پریکٹس کرنے والے وکیل یا نامزد جوڈیشل افسر کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹ پیش کرنا ہوگا۔