سپریم کورٹ نے منگل کو مرکز اور آسام حکومت کو غیر ملکی قرار دیے گئے افراد کو انکے ملک واپس بھیجنے میں تاخیر کرنے اور حراست میں رکھنے پر پھٹکار لگائی ہے۔ریاستی حکومت کی سست روی پر سوال اٹھاتے ہوئے جسٹس ابھے ایس اوکا اور اجل بھویان کی بنچ نے پوچھا، "کیا آپ کسی مہورت کا انتظار کر رہے ہیں؟عدالت نے حراستی مراکز میں قید 63 افراد کو 2 ہفتوں میں ملک بدر کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کیا کہا؟
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ 'غیر معینہ مدت تک نظربند رکھنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے.اس پر آسام حکومت کا کہنا تھا کہ ’ملک بدری ممکن نہیں ہے کیونکہ غیر قانونی تارکین وطن کے پتے معلوم نہیں ہیں۔جسٹس اوکا نے کہا کہ آپ اسے اس ملک کے دارالحکومت بھیج سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ وہ شخص پاکستان سے ہے، کیا آپ پاکستان کے دارالحکومت کا نام جانتے ہیں؟ آپ انہیں یہ کہہ کر غیر معینہ مدت تک حراست میں نہیں لے سکتے کہ ان کا غیر ملکی پتہ معلوم نہیں ہے۔
کمیٹی تشکیل دینے کا حکم
عدالت نے آسام حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ان لوگوں کے لیے بھی ملک بدری کا عمل شروع کرے جن کا غیر ملکی پتہ نہیں ہے اور مرکز سے ڈی پورٹ کیے جانے والوں اور حراستی مراکز میں رکھے جانے والوں کا ڈیٹا طلب کیا ہے۔نیز، مرکزی اور آسام حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حراستی مراکز میں نظر بند لوگوں کو مناسب سہولیات فراہم کی جائیں۔انہوں نے آسام حکومت سے کہا ہے کہ وہ عہدیداروں کی ایک کمیٹی تشکیل دے اور ہر 15 دن بعد ریاست کے حراستی مراکز کا دورہ کرے۔
دو ہفتوں کے اندر ملک بدر کرنے کا عمل کریں شروع:سپریم کورٹ
بنچ نے آسام حکومت کو ہدایت دی کہ وہ حراستی مراکز میں رکھے گئے 63 افراد کو دو ہفتوں کے اندر ملک بدر کرنے کا عمل شروع کرے اور حکم پر عمل درآمد سے متعلق حلف نامہ داخل کرے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں آسام میں غیر ملکی قرار دیے گئے افراد کی ملک بدری اور حراستی مراکز میں دستیاب سہولیات سے متعلق مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم آسام حکومت کو دو ہفتوں کے اندر تعمیل رپورٹ کے ساتھ ایک تازہ حلف نامہ داخل کرنا ہوگا۔ اگلی سماعت 25 فروری کو ہوگی۔