Wednesday, December 17, 2025 | 26, 1447 جمادى الثانية
  • News
  • »
  • سیاست
  • »
  • جمعیۃعلما کی قانونی لڑائی:تبدیلی مذہب قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر28جنوری 2026کوحتمی بحث

جمعیۃعلما کی قانونی لڑائی:تبدیلی مذہب قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر28جنوری 2026کوحتمی بحث

    Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Dec 16, 2025 IST

 جمعیۃعلما کی قانونی لڑائی:تبدیلی مذہب قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر28جنوری 2026کوحتمی بحث
سپریم کورٹ آف انڈیا نے مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب قوانین بنام لوجہاد کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر سماعت کرتے ہوئے 28/ جنوری 2026/کو حتمی بحث کئے جانے کا فریقین کو حکم دیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جومیلیا باگچی نے آج اس اہم معاملہ پرسماعت کی۔

اعتراض داخل کرنے کےلئے 3 ہفتوں کا وقت

 تبدیلی مذہب قانون بنانے والی ریاستی حکومتوں کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے ان قوانین کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر اعتراض داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیا جسے عدالت نے منظور کرلیا۔ چیف جسٹس سوریہ کانت نے سالیسٹر جنرل کو تین ہفتوں کے اندر اعتراض داخل کرنے کا حکم دیا۔ آج عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء و دیگر پیش ہوئے۔جبکہ دیگر تنظیموں کی جانب سے سینئروکلاء سی یو سنگھ، اندرا جئے سنگھ و دیگر پیش ہوئے۔

جمعیۃعلماء نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا 

واضح رہے کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پراتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، جھارکھنڈ، ہماچل پردیش،ہریانہ، کرناٹک اور دیگر ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اس مقدمہ کی پیروی جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کررہی ہے۔

 یہ قانون مذہبی آزادی اورغیرآئینی 

 جمعیۃ علما ء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن میں تحریر ہے کہ مختلف ریاستوں کی جانب سے تبدیلی مذہب قوانین کو بنانے کا مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کے سراسر خلاف ہے۔عرضداشت میں مزید کہاگیاہے کہ ان قوانین کی وجہ سے مذہبی اور ذاتی آزادی پر روک لگانے کی کوشش کی گئی ہے جوغیرآئینی ہے لہذا عدالت کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیاجاناچاہئے۔

تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت

قابل ذکرہے کہ2020/ میں سپریم کورٹ میں جب پٹیشن داخل کی گئی تھی  تواس پر عدالت نے سماعت کرتے ہوئے ریاستوں کو نوٹس جاری کیا تھا۔ عدالت نے مسلم فریق کی درخواست کے باوجود ان قوانین پر اسٹے نہیں دیا تھاجس کی وجہ سے اتر پردیش سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں مذہب تبدیل کرانے کے الزامات کے تحت سیکڑوں مسلمانوں پر مقدمات قائم کئے گئے۔جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ دیگر 12/ تنظیموں نے بھی تبدیلی مذہب قوانین کو چیلنج کیا ہے، تمام عرضداشتوں پرعدالت  یکجا سماعت کررہی ہے۔