جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی خصوصی دفعات کو منسوخ کرنے کی چھٹی برسی کے موقع پر سخت سیکوریٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ سخت سیکوریٹی کے درمیان مقامی عوام بے چینی کا شکار ہیں۔ اس دوران ایسی قیاس آرائیوں نے زور پکڑا ہے کہ مرکزی حکومت 5 اگست کو مرکز کے زیر انتظام اس علاقے کیلئے نئے اقدامات کا اعلان کرسکتی ہے۔ اس دوران چیف منسٹر عمرعبداللہ نے کہاکہ میں نے ہرممکنہ تبدیلی اور امتزاج کے بارے میں سناہے کہ پانچ اگست کو کچھ نیا ہوسکتاہے تاہم انہوں نے کہاکہ مجھے اس طرح کی کوئی امید نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کیا کہا؟
عمر عبداللہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر لکھا، 'میں نے ہر ممکنہ امکان اور امتزاج کے بارے میں سنا ہے کہ کل جموں و کشمیر میں کیا ہونے والا ہے۔ اس لیے میں پوری ایمانداری سے کہوں گا کہ کل کچھ نہیں ہوگا۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ خوش قسمتی سے کچھ برا نہیں ہوگا، لیکن بدقسمتی سے کچھ بھی مثبت نہیں ہوگا. میں پارلیمنٹ کے اس مانسون اجلاس میں جموں و کشمیر کے لیے کچھ مثبت ہونے کے بارے میں اب بھی پر امید ہوں،اسکے بعد انہوں نے آج کی تاریخ جس دن جموں و کشمیر سے 370 کو منسوخ کر دیا گیایعنی پانچ اگست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ،کچھ نیا اور مثبت ہونے کی امید نہیں ہے۔
اعلیٰ سطحی میٹنگوں سے قیاس آرائیاں تیز:
عمر عبداللہ نے کہا، میں نے دہلی میں لوگوں سے ملاقات یا بات چیت نہیں کی ہے۔ یہ صرف اندرونی احساس ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟پیر کو جموں و کشمیر کی تنظیم نو کی چھٹی سالگرہ کے موقع پر اعلیٰ سطحی میٹنگوں نے یہ قیاس آرائیاں شروع کر دیں کہ مرکز اس خطے میں ریاست کا درجہ بحال کرنے کا عمل شروع کر سکتا ہے۔ منگل کی صبح این ڈی اے ممبران پارلیمنٹ کی میٹنگ ہے۔ اتوار کو صدر دروپدی مرمو، وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے درمیان الگ الگ ملاقاتوں نے اس معاملے کو مزید تیز کر دیا ہے۔
عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم :
جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم مسلسل چوتھے دن بھی جاری رہا۔ سیکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ پیر کو دن بھر جنگل میں شدید فائرنگ اور گولہ باری کی آوازیں گونجتی رہیں۔ ایک پولیس افسر نے بتایا کہ اس کارروائی میں کچھ اور وقت لگ سکتا ہے کیونکہ یہ علاقہ گھنا جنگل ہے۔ عسکریت پسندوں کے عروج پر ہونے کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کے لیے اہداف کا تعین کرنا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ذرائع کے مطابق سیکیورٹی حصار میں پھنسے عسکریت پسندپاکستانی ہوسکتے ہیں جوکہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہیں۔ فوج ان کی تلاش کے لیے ڈرون، ہیلی کاپٹر اور دیگر جدید آلات استعمال کر رہی ہے۔ گھنے جنگل میں چھپے عسکریت پسندوں کو مارنے کے لیے راکٹ لانچر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس آپریشن میں فوج کی اسپیشل پیرا فورس بھی شامل ہے۔