ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی سے پیدا ہونے والے تناؤ کے درمیان ہندوستان۔امریکہ تجارتی معاہدے پر بات چیت دوبارہ شروع ہونے جارہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے چیف مذاکرات کار برینڈن لنچ کی قیادت میں امریکی وفد کل رات نئی دہلی پہنچا۔ ٹرمپ کی جانب سے روس سے تیل خریدنے پر ہندوستان پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے بعد پہلی بار دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت ہوگی۔ غور طلب ہے کہ حالیہ دنوں میں تجارتی مذاکرات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے موقف میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس کا وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی خیر مقدم کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو نے تجارتی مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آرہا ہے۔ پچھلے ہفتے ناوارو نے ایک امریکی ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ ہندوستان کو کسی نہ کسی وقت امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں آنا پڑے گا، ورنہ دہلی کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے قبل ناوارو نے ہندوستان کو 'مہاراجہ آف ٹیرف' قرار دیا تھا۔
امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارت پر مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں۔ مذاکرات کے چھٹے دور سے پہلے دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخی آئی اور اگست میں مذاکرات ملتوی کر دیے گئے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ تجارتی بات چیت کے بیچ میں صدر ٹرمپ نے روس سے تیل خریدنے پر ہندوستان پر 50 فیصد ٹیرف عائد کر دیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔
اس سے قبل امریکی ٹیم نے چھٹے دور کی بات چیت کے لیے 25 اگست کو ہندوستان کا دورہ کرنا تھا۔ لیکن امریکہ کی جانب سے محصولات عائد کرنے کے بعد یہ مذاکرات ملتوی ہو گئے تھے۔ ایک سرکاری عہدیدار نے کہا کہ ہم پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ بات چیت جاری ہے۔
ٹرمپ کے ٹیرف نے تناؤ میں اضافہ کیا:
بتا دیں کہ ہندوستان کی برآمدات امریکی انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے اعلیٰ محصولات سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس کشیدگی کی وجہ سے مجوزہ تجارتی معاہدے پر پیش رفت بھی متاثر ہوئی ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے مثبت بیانات کی وجہ سے ماحول کچھ بہتر ہوا ہے۔دونوں ممالک نے اس سے قبل ستمبر اکتوبر تک معاہدے کے پہلے مرحلے کو مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔