'آئی لو محمد'پوسٹر تنازع ملک کے ہر خطے میں پہنچ چکا ہے۔یوپی سے لیکر گجرات تک مسلسل مظاہرین کا احتجاج جاری ہے۔مسلم برادری جہاں' آئی لو محمد'پوسٹر کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں ،وہیں اب ہندو تنظیموں نے اس احتجاج کی مخالفت میں 'آئی لو مہا دیو 'پوسٹر کا آغاز کر دیا ہے،جو کہ اب ملک بھر میں ایک الگ رخ اختیار کر لیا ہے۔کئی علاقوں میں احتجاج درج کرنےپر پولیس کی جانب سے مسلم نوجوانوں پر بر بریت کا الزام ہے،اسی تناظر میں ایک معاملہ گجرات کے بہیال علاقے کا ہے،جہاں جاری تنازع میں ہندو شخص کی جانب سے جاری کردہ ایک متنازعہ پوسٹ نے تشدد برپا کرا دیا۔
جس میں مسلمانوں کا الزام ہے کہ پولیس نے یکطرفہ کارروائی کی اور مخالف ہجوم کا ساتھ دیا۔ مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ ہندو گروہوں کے ارکان مسلمانوں کے گھروں میں گھس گئے۔ یہ بھی الزام ہے کہ گروہ نے پولیس کی موجودگی میں املاک کو نقصان پہنچایا اور خواتین و بچوں کو ہراساں کیا۔مگر پولیس خاموش تماشا ئی بنی رہی۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
میڈیا رپورٹ کے مطابق، تشدد اس وقت بھڑکا جب علاقے کے رہائشی ہیشبھائی پٹیل بینکر نے ان مسلمانوں کی توہین کی جو "آئی لو محمد" نامی آن لائن مہم چلا رہے تھے۔ انہوں نے انہیں جاہل قرار دیا اور اس کے خلاف "آئی لو مہادیو" کیمپین چلانے کی بات کی۔
مسلمان رہائشیوں نے اس طرح کے اقدامات کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ حالات اس وقت سنگین ہوگئے جب مسلمان ہندو اکثریتی علاقے سے گزر رہے تھے، تو مقامی لوگوں نے ان کی پٹائی کردی، جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تشدد بھڑک اٹھا۔
الزام ہے کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی:
عینی شاہدین نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ پولیس حملوں کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی، اور جانبدارانہ رویہ اپنایا، مسلمانوں کے گھروں کو نشانہ بنایا اور صرف مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا۔
رہائشیوں کا کیا الزام ہے؟
رہائشیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ شخص مسلسل مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ایک اور مقامی رہائشی نے مکتوب میڈیا کو بتایا،کہ ستیش کی پوسٹ اشتعال انگیز تھی اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی تھی۔ ہم تو بس شکایت درج کروانے گئے تھے، لیکن پولیس نے مسلمانوں کے خلاف ہی مقدمہ درج کرلیا۔مقامی کارکنوں اور انسانی حقوق کے گروہوں نے بہیال میں ہونے والے تشدد کی مذمت کی ہے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، بہیال کے وکیل محمد قاضی نے کہا، یہ بدامنی اس وقت شروع ہوئی جب ایک دائیں بازو کے شخص نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ہندو دائیں بازو کے ایک تنظیم سے وابستہ شخص کھلے عام بدلہ لینے کی بات کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے،جو کہ تشدد کی وجہ ہے،مگر اصل ملزم کو چھوڑ کر مسلموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔