Friday, May 23, 2025 | 25, 1446 ذو القعدة
  • News
  • »
  • قومی
  • »
  • وقف ترمیمی ایکٹ 2025۔ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ

وقف ترمیمی ایکٹ 2025۔ قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل،فیصلہ محفوظ

Reported By: Munsif TV | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: May 22, 2025 IST     

image
 
وقف ترمیمی ایکٹ 2025  کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہوگئی ہے۔ عدالت نے دونوں فریقوں کا موقف سننے کے بعد فیصلہ کو محفوظ کرلیا ہے۔ سپریم کورٹ  میں جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح  پر مشتمل بنچ نے   مقدمہ کی  سماعت کی ۔ مودی حکومت نے 3 اپریل  کو لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل پاس کیا تھا۔ اور راجیہ سبھا میں 4 اپریل کوبل منظور کر لیا گیا تھا۔ اور صدر جمہوریہ کی5 اپریل کو منظوری دی تھی ۔
 
 اس قانون کو کانگریس رکن پارلیمنٹ محمد جاوید، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی ، مسلم پرسنل لا بورڈ، اور کئی مسلم تنظیموں نے چیلنچ کیا۔ عرضی گزاروں نے کہاکہ یہ  قانون مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ، آئین کے خلاف ہے۔ حکومت اوقافی جائیدادوں کو  مسلمانوں سے چھینا چاہتی ہے۔  سینئر وکلا، کپل سبل ، راجیو دھون، ابھیشک منوسنگھوی ، حذیفہ احمدی ،  سی یو سنگھ اور دیگر نے عرضی گذاروں کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کے مطابق، اس کوتاہی سے تاریخی مساجد، قبرستان اور خیراتی املاک، جن میں سے کئی صدیوں سے بغیر رسمی وقف کے موجود ہیں، اپنے مذہبی کردار سے محروم ہو جائیں گی۔
 
دلچسپ بات یہ ہے کہ کیرالہ میں مقیم ایک ہندو تنظیم جس کا نام  سری نارائن منوا دھرم ٹرسٹ ہے، نے بھی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے ایک عرضی دائر کی ہے ، یہ دلیل دی ہے کہ اس سے ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے وجود کو خطرہ ہے۔ ریاست  کیرالہ نے بھی  ترمیم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ہے ۔ ابھی حال ہی میں،  ریاست کیرالہ نے اس ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے مداخلت کی درخواست دائر کی  ، اس بنیاد پر کہ مسلم کمیونٹی کی طرف سے ظاہر کیے گئے خدشات درست ہیں۔منگل کو، درخواست گزاروں نے دلیل دی  کہ اس ترمیم میں مسلمانوں کو الگ کیا گیا ہے اور اس لیے آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت مذہبی امتیاز کے خلاف حق کی واضح خلاف ورزی ہے۔
 
بدھ کومرکزی حکومت نے دعویٰ کیا کہ وقف بورڈ صرف سیکولر کام انجام دیتا ہے اور اس لیے اس کے کام کاج متاثر نہیں ہوگا۔ اگر  وقف بورڈ یا وقف کونسل  میں صرف دو غیر مسلم ارکان  کو شامل کیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ وقف ایک ضروری مذہبی عمل نہیں ہے۔
 
اس سے  پہلے 17 اپریل کو،  مرکزی حکومت نے اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ  کی سربراہی میں بنچ کو یقین دلایا  کہ وہ فی الحال ایکٹ کی کئی اہم دفعات کو نافذ نہیں کرے گی۔ عدالت نے اس یقین دہانی کو ریکارڈ کیا اور فیصلہ کیا کہ کوئی ایکسپریس اسٹے کا حکم نہ دیا جائے۔اس کے جواب میں، مرکزی حکومت نے برقرار رکھا ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 وقف کی دفعات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے لایا گیا تھا جس کا غلط استعمال نجی اور سرکاری املاک پر قبضے کے لیے کیا جا رہا تھا۔
 
 وہیں اس قانون کی حمایت میں چھ بی جے پی زیر قیادت  ریاستی حکومتیں  ہریانہ ، مہاراشٹر ، مدھیہ پردیش، راجستھان چھتیس گڑھ اور آسام    عدالت سے رجوع ہوئیں۔
 
  مسلم تنظیمیں اس قانون کی مخالفت میں سڑک سے سنسد تک احتجاج  کر رہی ہیں۔ ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ  کی قیادت میں ملک بھر میں قانون کو واپس لینے کے لئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔  اس احتجاج میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈرس بھی شامل ہو رہے ہیں۔