Friday, May 23, 2025 | 25, 1446 ذو القعدة
  • News
  • »
  • قومی
  • »
  • وقف اسلام کا لازمی حصہ نہیں ۔مرکز کا سپریم کورٹ میں موقف۔ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر روک لگانے کی مخالفت

وقف اسلام کا لازمی حصہ نہیں ۔مرکز کا سپریم کورٹ میں موقف۔ وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پر روک لگانے کی مخالفت

Reported By: Munsif TV | Edited By: Mohammad Imran Hussain | Last Updated: May 21, 2025 IST     

image
سپریم کورٹ نے 21 مئی کو وقف ترمیمی ایکٹ 2025 پرعبوری روک لگانے کی مخالفت کرنے والی مرکزی حکومت کی طرف سے کی گئی دلیلوں کی سماعت کی۔  چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بنچ نے دلائل کی سماعت کی۔ اس معاملے پر  جمعرات کو بھی سماعت ہوگی۔ سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے یہ کہتے ہوئے عدالت میں بحث کا آغاز کیا کہ ترمیمی ایکٹ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے تفصیلی غور وخوض کے بعد منظور کیا گیا، جس نے ملک بھر کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی گئی ۔
 
  تشارمہتا نے وقف ایکٹ کے سکشن  سی 3  کے ضابطے کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جائیداد کو وقف املاک کے طور پر نہیں مانا جائے گا جب تک کہ ایک نامزد افسر اس بات کی تحقیقات مکمل نہیں کرتا کہ آیا یہ سرکاری اراضی پر تجاوزات کر رہی ہے۔ اس کے بارے میں مہتا نے کہا کہ اس شرط کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریونیو ریکارڈ میں اندراج کیا جائے گا۔
 
 ایس جی نے دلیل دی کہ وقف ایک اسلامی تصور ہے۔ لیکن یہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ وقف اسلام میں صرف عطیہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ خیرات یاعطیہ کو ہر مذہب میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور اسے کسی مذہب کا لازمی اصول نہیں سمجھا جا سکتا۔  وقف فی نفسہ ایک ضروری مذہبی عمل نہیں ہے، ایس جی نے مذہب کے روحانی اور سماجی پہلوؤں کے درمیان فرق پر ڈاکٹر امبیڈکر کی تقریر کا حوالہ دیا اور ضروری مذہبی طریقوں پر جان ویلاموٹم کیس کا حوالہ دیا۔
 
ایس جی نے آگے کہا کہ وقف بورڈ سیکولر کام انجام دے رہے ہیں۔ وقف بورڈ صرف سیکولر کام انجام دیتا ہے۔ جائیدادوں کا انتظام، رجسٹر کی دیکھ بھال، اور اکاؤنٹس کا آڈیٹنگ۔  یہ ادارہ خالصتاً سیکولر ہے۔ کسی مذہب میں سیکولر طریقوں کو منظم کرنے کا اختیار ہے۔ جائیداد کا نظم و نسق قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایس جی نے کہا کہ وقف بورڈ میں دو غیر مسلموں کے ہونے سے کوئی مذہبی عمل متاثر نہیں ہوگا۔
 
 تشا مہتا نے کہا کہ ہندو مذہبی اوقاف مکمل طور پر مذہبی ہیں۔ وقف کچھ بھی ہو سکتا ہے، مسجد، درگاہ، یتیم خانہ، اسکول  وغیرہ ہے۔ یہاں کئی سیکولر اور خیراتی ادارے چلائے جا رہے ہیں، اس لیے وہاں غیر مسلم بھی شرکت کر سکتی ہے، کیونکہ وقف غیر مسلموں سے بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلموں کو شامل کیا گیا ہے۔
 
ایس جی نے عرضی گزاروں کے ان دلائل کی تردید کی کہ ترمیم ریاستی وقف بورڈ اور سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلموں کو اکثریت میں رہنے کی اجازت دیتی ہیں، اور زور دیا کہ غیر مسلموں کی زیادہ سے زیادہ وقف بورڈ میں تعداد 2 ہے۔ ایس جی نے استدلال کیا کہ درخواست گزاروں کا وقف بورڈ کا ہندو اوقاف کے انتظام کرنے والے بورڈ سے موازنہ کرنا نامناسب ہے۔ اس معاملے پر سماعت جمعرات کو بھی ہوگی۔