26 ستمبر جمعہ کواتر پردیش کے بریلی میں مسلم برادری کی جانب سے 'آئی لو محمد'پوسٹر تنازع پر احتجاج نکالا گیا،جس دوران یوپی پولیس نے بد امنی کے نام پر مظاہرین پر لاٹھی چارج کر دی،جس میں کئی نوجوان زخمی بھی ہوئے ،بعد ازاں پولیس کارروائی کرتے ہوئے، آئی ایم سی کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان سمیت 40 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا۔ اسکے علاوہ 2000 سے زائد نامزد افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ۔تاہم آج ایک بار پھر یوپی پولیس نے توقیر رضا کے قریبی نفیس خان کو اس کے بیٹے سمیت گرفتار کرلیا ہے۔
بریلی تنازعہ پر کیا اپ ڈیٹ ہے؟
پولیس اب تک 55 مظاہرین کو جیل بھیج چکی ہے۔ 192 نامزد مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، جبکہ 3351 نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ پولیس گرفتاریوں کے لیے ویڈیوز اور تصاویر کی جانچ بھی کر رہی ہے۔ساتھ ہی علاقوں میں افراد کی شناخت کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔پولیس نے 15 دیگر افراد کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ نفیس کی مارکیٹ، جہاں آئی ایم سی کا دفتر واقع ہے، سیل کر دیا گیا ہے۔
پتھر کہاں سے آیا؟
Attention Muslims! Stay Alert.🚨
— Muslim IT Cell (@Muslim_ITCell) September 29, 2025
Look closely, this is how some elements deliberately attack Muslim processions, throwing stones & instigating riots.
In Bareilly, the administration even asked,
“Where did the stone-pelting come from?”
here’s the video evidence for all to see.👇 pic.twitter.com/lJIOnNsnM6
بریلی تنازع کے بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہے،جسے واقعے کے دن کا بتایا گیا ہے۔جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص جو چھت پر ہےانکی جانب نوجوان پولیس کے سوال پر کہ 'پتھراؤ کہاں سے آیا؟'کے جواب میں اشارہ کرتے ہوئے چھت کی جانب دکھاکر بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شر پسند افراد ماحول بگاڑنے کی کوشش میں ہیں،لیکن پولیس نے انہیں ہی اپنی بربریت کا شکار بنائی،اور ان پر لاٹھی چارج کی۔
مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری پر امیر،جماعت اسلامی ہند نے کیا کہا؟
ایک طرف جہاں سب کی زبان سلی ہوئی ہے،وہیں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری اور بریلی میں متعدد دیگر افراد کی پولیس حراست کو انتہائی تشویشناک معاملہ قرار دیا ۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے ملک کو فرقہ وارانہ سیاست اور نفرت پر مبنی طرزِ حکمرانی کی طرف دھکیلنے کی خطرناک علامت ہے۔
سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ یہ سب ایک سادہ اور پُرامن نعرے "آئی لو محمد ﷺ"جو محض عقیدت اور محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ کے ساتھ اپنی عقیدت میں احتجاج کر رہے تھے۔لیکن اسے بدنیتی سے عوامی نظم و ضبط کے لیے خطرہ قرار دے کر بے قصور افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئیں اور ان کی اجتماعی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔
یہ عمل صرف غیرمنصفانہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی اس تہذیبی روایت پر کھلا حملہ ہے جو فرد کا احترام، مشترکہ تہذیب اور بقائے باہمی کی ضامن رہی ہے۔ صدیوں سے ہندوستانی عوام نے ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ زندگی گزاری ہے۔ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ محض عقیدت کے اظہار سے سماج تقسیم ہوسکتا ہے۔ حقیقت میں یہ پورا بحران منظم سیاسی شرانگیزی کا نتیجہ ہے۔