اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ اگر اتر پردیش کے سنبھل میں مغل دور کی مسجد کے بارے میں عرضی میں رسائی کے حق کی بات کی گئی تھی تو وہاں کی عدالت نے ڈھانچے کے سروے کا حکم کیوں دیا؟
حکمراں بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے اویسی نے کہا کہ اس طرح کے مسائل ملک کو کمزور کرتے ہیں کیونکہ ملک کو پہلے سے ہی مہنگائی۔ بے روزگاری۔ کسانوں کی خودکشی اور دیگر مسائل کا سامنا ہے۔
اویسی نے سوال کیا کہ اگر عبادت گاہوں کے قانون کے مطابق مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا تو پھر سروے کا حکم کیوں دیا گیا؟
1991 میں ایک قانون لایا گیا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جائے گا اور وہ ویسا ہی رہے گا جیسا کہ 15 اگست 1947 کو تھا۔
اسکے علاوہ اویسی نے کہا کہ اجمیر درگاہ کو لے کر بھی تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ ہندو سینا کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں شیو مندر ہوا کرتا تھا۔ 800 سال سے موجود درگاہ کا ذکر (صوفی شاعر) امیر خسرو نے بھی اپنی کتاب میں کیا ہے۔
واضح رہے کہ 24 نومبر کو عدالت کے حکم پر مسجد کے سروے کے دوران تشدد نے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیاتھا جس میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ سنبھل واقعہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اویسی نے کہاکہ اگر ہم عرضی کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت نے سروے کا جو حکم دیا ہے وہ غلط ہے۔