Wednesday, October 16, 2024 | 1446 ربيع الثاني 13
Latest

تحریک ریشمی رومال کی سیاسی اور تاریخی اہمیت،تحریک شیخ الہند سے جمعیت علمائے ہند تک

علم و عمل کی مسند سجانے اور اشاعت علوم نبوت کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والے شیخ الہند احوال زمانہ سے کبھی غافل نہیں رہے۔ دیو بند کی چٹائیوں پر بیٹھ کر پورے عالم کے حالات پر ایسی نظر رکھی کہ لوگوں کو یہ شبہ بھی نہیں ہوا کہ یہ زاہد فی الدنیا بزرگ جس کی ظاہری زندگی مسجد اور مدرسہ تک ہی محدود ہے وہ کسی بین الاقوامی تحریک کی قیادت بھی کرے گا؟
مگر وقت نے بتا دیا کہ یہی وہ مجاہد انسان تھا جو دسیوں سال دیو بند میں بٹھ کر خلافت عثمانیہ کے خلاف انگریزی ریشہ دوانیوں، بلقان و طرابلس کی خوں چکاں داستانوں، اور عالم عرب پر انگریزی چیرہ دستیوں پر کرب کی حالت میں راتوں کو کروٹیں بدلتا رہا، اور جس نے بالآخر  "بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق" کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک ہندوستان کو انگریز سے نجات دلانے کے لیے ایک تحریک کا منصوبہ بنایا جسے بعد میں تحریک شیخ الہند یا تحریک ریشمی رومال کے نام سے جانا گیا۔
 
یہ تحریک کیا تھی ؟
تحریک ریشمی رومال کی جہاں سیاسی اہمیت ہے وہیں اسکی تاریخی اہمیت بھی ہے کیونکہ اس تحریک کا ملک کی آزادی میں اہم رول ہے۔ جس کی قیادت خود شیخ الہند مولانا محمود حسن نے کی تھی۔
 1914 میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن نے محسوس کیا کہ وقت قریب آگیا ہے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ شروع کی جاسکتی ہے۔ چونکہ اس وقت خلافت عثمانیہ مشرقی وسطیٰ کے وقار کی محافظ سمجھی جاتی تھی اور ترکی ہی برطانیہ،اٹلی ،فرانس،یونان اور روس کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا تھا اسی لیے آپ نے حضرت مولانا عبید اللہ سندھی  کو افغانستان جانے کا حکم دیا اورخود حجاز وخلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔
مولانا سندھی کے سفر کا مقصد یہ تھا کہ وہ افغانستان کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اخلاقی اور فوجی امداد دینے کے لیے تیار کریں۔ مولانا سندھی کے کابل پہنچنے سے پہلے پنجاب اورسرحد کے انگریز ی کالج کے طلبہ کا ایک وفد بھی کابل پہنچ چکا تھا، جہاں ان کو نظر بند کردیا گیا تھا۔ طلبہ کے اس وفد کا مقصد یہ تھا وہ خلافت عثمانیہ کی فوج میں شامل ہوکر انگریزوں سے لڑیں لیکن انہیں نظر بند کر دیاگیا، ان سبھی طلبہ کو مولانا سندھی نے کابل پہنچنے کے بعد رہا کرا دیا تھا۔ مولانا سندھی نے ان مہاجر طلبہ کو اپنے حلقہ میں شامل کرکے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ترکی فوج میں شامل ہوجائیں اور افغانستان ہی میں رہ کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کریں، چنانچہ وہ طلبہ تیار ہوگئے لیکن جب ان سارے واقعات سے انگریز واقف ہو گیے تو حکومتِ برطانیہ نے حکومتِ افغانستان سے احتجاج کرنا شروع کر دیا، مولانا عبیداللہ سندھی نے ان پرخطر حالات سے حضرت شیخ الہند کو مطلع کرنا ضروری سمجھا اور ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر خط لکھ کر 9 جولائی 1916 کو عبد الحق کو دیا اور ان کو ہدایت دی کہ یہ خطوط شیخ عبدالرحیم سندھی اور سیخ الہند کو پہنچا دیں۔ ’’ریشمی رومال‘‘ کے اس خط کے ہی وجہ سے اس تحریک کا نام ریشمی رومال پڑا۔
ریشمی خطوط کے مضمون کیا تھے؟
 خیال رہے کہ پہلا خط جو شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا اس کا مضمون یہ تھا کہ ’’یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا ہے جسمیں لکھا تھا کہ حضرت شیخ الہندکو خط کے ذریعہ اور زبانی بھی آگاہ کردیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں اور حضرت مولانا شیخ الہند مطلع ہوجائیں کہ مولانا منصور انصاری اس بار حج کے لیے نہ جاسکیں گے اور شیخ عبد الرحیم کسی نہ کسی طرح کابل میں مولانا سندھی سے ملاقات کریں‘‘۔     دوسرا خط شیخ الہند کے نام تھا جس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھادیا جائے کیونکہ اس خط میں رضاکار فوج ’’جنود اللہ‘‘ اور اس کے افسروں کی تنخواہوں کا بھی تذکرہ تھا۔     
مولانا سندھی نے یہ خطوط ریشمی رومال پر لکھ کر عبد الحق کو دیا اور ان کو ہدایت دی کہ یہ خط شیخ عبدالرحیم سندھی کو پہنچا دیں۔ عبدالحق ایک نو مسلم تھے، وہ مہاجر طالب علموں کے ساتھ افغانستان گیے تھے۔  جب یہ خطوط عبدالحق کو پہنچانے کے لیے دیے گئے تو وہ سرحد کے راستے سے پنجاب ہوتے ہوۓ بہاولپور پہنچے اور وہاں بہاولپور کے مرشد کے پاس وہ کوٹ رکھ دی جس کے استر میں وہ ریشمی ٹکڑے سلے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ بہاولپور سے اپنے دوست نواز سے ملاقات کرنے کے لیے ملتان چلے گۓ  اور پھر وہ مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگرمیوں کی تفصیل بھی ان کو بتادی۔ اور رب نواز کے اسرار پر بہاولپور کے مرشد مولانا محمد کے پاس سے وہ کوٹ بھی لاکر رب نواز کے سپرد کردیا جس کے استر میں وہ ریشمی خطوط سلے ہوئے تھے۔ جب رب نواز کو یہ خطو ط ہاتھ لگے تو اس نے غداری کی اور اس نے فوراً ہی کمشنر سے ملاقات کی اور ریشمی خطوط پیش کیے اور تمام تفصیلات سے اس کو باخبر کردیا۔  کمشنر کو مفصل رپورٹ ملتے ہی کھلبلی مچ گئی جسکی وجہ سے برطانوی حکومت نے نہایت ہی تیزی سے کارروائی شروع کردی، چھاپے مارے گئے اور گرفتاریاں شروع ہوگئیں جس میں 220 افراد کے خلاف انکوائری اور پوچھ تاچھ کی گئی، 59 اشخاص پر حکومت برطانیہ کا تختہ الٹنے کا اور غیر ممالک سے امداد حاصل کرنے کی سازش کا مقدمہ قائم کیاگیا، اسکے چند روز بعد شیخ الہند اور ان کے ساتھی بھی مکہ معظمہ میں گرفتار کر لیے گئے اور وہاں سے 15 فروری 1917 کو مالٹا روانہ کردیے گئے، جو سیاسی اور جنگی قیدیوں کا مرکز تھا۔ پھر مالٹا کی جیل میں سخت تکلیف کی زندگی گزار نے کے بعد 8 جون 1920 کو تین برس سات مہینے کے بعد بمبئی پہنچا کر آپ کو رہا کر دیا گیا، شیخ الہند جب مالٹا سے رہا ہوکر آئے تو عام منظر نامہ بدل چکا تھا اسی لئے انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے لئے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور جمعیۃ علماء ہند کو مشورہ دیا کہ وہ انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیں اور تشدد کو چھوڑ کر عدم تشدد کا نعر ہ لگائیں، شیخ الہند کی وفات کے بعد ان کے شاگرد خاص رفیق مالٹا حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور شیخ الہند کے شاگرد حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب وغیرہ نے ان کے نقش قدم پر چل کر تحریک  آزادی کو آگے بڑھایا۔  واضح رہے کہ حضرت شیخ الہند کے وفات کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے حالات کے مزاج کو سمجھتے ہوئے فراست ایمانی پر مبنی ایک حکمت عملی اختیار کی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پھیلتے زہریلے اثرات کو روکنے کے لیے برادران وطن پر مشتمل تنظیم کانگریس سے اتحاد کرکے ملک کی مکمل آزادی کے لئے فرقہ و مذہب کی قید سے آزاد ہوکرلڑائی شروع کی۔
اس طرح ملک کی آزادی میں ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ کا اہم رول ہے اور تاریخِ آزادی کا اہم باب بھی۔ آج ہمارا ملک آزاد ہے اور ہم آزاد ملک میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان مجاہدین کے کارناموں کو یاد کریں اور خراجِ تحسین پیش کریں، جنہوں نے ملک کی آزادی میں حصہ لیا۔

از قلم: امام علی فلاحی