افغانستان اس وقت شدید انسانی بحران کا شکار ہے۔ کچھ علاقوں میں لوگوں کو خوراک اور صاف پانی کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے۔ غزہ، یمن اور سوڈان کے بعد اب افغانستان کو بڑے پیمانے پر ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔افغانستان کو اگلے سال دنیا کے سب سے بڑے بحران کا سامنا در پیش ہے۔ یہ پیشین گوئی ٹام فلیچر، انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور اور ہنگامی امداد کوآرڈینیٹر نے کی ہے۔انہوں نے افغانستان میں انسانی بحران کے لیے تیار رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
افغانستان ان وجوہات کی وجہ سے نقصان اٹھا رہا ہے:
فلیچر نے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ میں بتایا کہ بیک وقت کئی جھٹکوں نے افغانستان کو شدید انسانی بحران میں ڈال دیا ہے۔ جن میں خواتین اور لڑکیوں کو متاثر کرنے والی پابندی والی پالیسیاں، کئی دہائیوں کے تنازعات اور دائمی غربت کے طویل مدتی اثرات کے ساتھ ساتھ اس سال فنڈنگ میں نمایاں کٹوتیاں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2026 میں افغانستان میں تقریباً 22 ملین افراد کو امداد کی ضرورت ہوگی، یہ سوڈان اور یمن کے بعد دنیا کا تیسرا سب سے بڑا انسانی بحران کا سامنا کرنے والا ملک بن جائے گا۔
1.7 بلین ڈالر کا مطالبہ:
فلیچر نے کہا، "ہماری درخواست 17.5 ملین افراد کو ہدف بنانے کے لیے 1.7 بلین ڈالر کی ہے۔ لیکن فنڈنگ کے حقائق کو دیکھتے ہوئے، ہم نے 3.9 ملین لوگوں کو ہدف بنانے کے اپنے منصوبے کو مزید ترجیح دی ہے جنہیں زندگی بچانے والی امداد کی ضرورت ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ چار سالوں میں پہلی بار افغانستان میں بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 17.4 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ مزید برآں، بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی واپسی کی وجہ سے ملک کی ضروری خدمات پہلے ہی متاثر ہو رہی ہے۔
2 سالوں میں 4 ملین سے زائد مہاجرین واپس آئے :
اس سال 2025 میں 2.6 ملین سے زیادہ افغان مہاجرین واپس آئے۔ یہ اعداد و شمار پچھلے دو سالوں میں واپس آنے والوں کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں واپس لوٹنے والوں کی حالت تشویشناک ہے۔
فلیچر نے بتایا کہ اس سال واپس آنے والوں میں 60 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پناہ گزین ایک ایسے ملک میں واپس جا رہے ہیں جہاں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم، کام اور بعض صورتوں میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے محروم رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کا کیا حال ہے؟
فلیچر نے بتایا کہ پاکستان میں 25 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ ابھی چند روز قبل ہی ان میں سے بیشتر افراد کی قانونی حیثیت منسوخ کر دی گئی تھی۔ نتیجتاً یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان سے مزید بڑے پیمانے پر واپسی ہو گی جو تشویشناک ہے۔
40 ملین ڈالر سے زیادہ اضافی فنڈنگ:
فلیچر نے کہا کہ محدود فنڈنگ کے باوجود اقوام متحدہ اور اس کے شراکت دار افغانستان میں اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں اور ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سنٹرل ایمرجنسی رسپانس فنڈ نے 40 ملین ڈالر سے زائد کی اضافی فنڈنگ جاری کی ہے جس سے کسی حد تک صورتحال کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔