Thursday, November 27, 2025 | 06, 1447 جمادى الثانية
  • News
  • »
  • عالمی منظر
  • »
  • آسٹریلوی پارلیمنٹ میں اسلامی لباس پر تنازعہ: برقعہ پہن کر پارلیمنٹ پہنچنے پرخاتون سینیٹرمعطل

آسٹریلوی پارلیمنٹ میں اسلامی لباس پر تنازعہ: برقعہ پہن کر پارلیمنٹ پہنچنے پرخاتون سینیٹرمعطل

    Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Nov 26, 2025 IST

آسٹریلوی پارلیمنٹ میں اسلامی لباس پر تنازعہ: برقعہ پہن کر پارلیمنٹ پہنچنے پرخاتون سینیٹرمعطل
آسٹریلوی پارلیمنٹ میں اسلامی لباس پرتنازعہ ہوا ہے۔ ملک میں برقع پر پابندی کا مطالبہ کو لیکر ایک خاتون سینیٹر برقعہ پہن کر پارلیمنٹ میں پہنچی۔ ساتھی ارکان نے اس عمل پراعتراض کیا۔ اور برقعہ پر پابندی کی اس کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔ اسپیکر نے واقعے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر کو تین ماہ کے لیے معطل کردیا۔

سینیٹربرقعہ پہن کرپارلیمنٹ پہنچی 

دراصل ہوا یہ تھا کہ سینیٹر پولین ہینسن (71) نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا جس میں آسٹریلیا میں چہرے کو مکمل طور پر ڈھانپنے والے برقعہ اور لباس پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ ہینسن، جو اس وقت مشتعل ہو گئی تھیں جب ان کے ساتھی سینیٹرز اس بل پر بحث کے لیے بھی راضی نہیں ہوئے، وہ برقعہ پہن کر پارلیمنٹ میں آئی۔اس نے اسے سر سے پاؤں تک خود کو  ڈھانپ رکھا تھا۔

 ہینسن کا رویہ انتہائی قابل اعتراض

تاہم، دیگر سینیٹرز نے ہینسن کی برقعہ میں میٹنگز میں شرکت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میٹنگز میں شرکت پارلیمنٹ اور ان کے ساتھی سینیٹرز کی توہین ہے، اور ہینسن کا رویہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ ہینسن کے رویے سے اسپیکر بھی برہم تھے۔ اس نے فوراً اسے ایوان سے معافی مانگنے کا حکم دیا۔ جب ہینسن نے کہا کہ وہ معذرت خواہ ہیں، سپیکر نے انہیں فروری تک معطل کر دیا۔

24 نومبر کو پیش آیا معاملہ 

آسٹریلین سینیٹر کی پارلیمنٹ میں24 نومبر کو ایک  ایسا ڈرامہ دیکھنے کو ملا،جو پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔در اصل انتہائی دائیں بازو نظریات سے تعلق رکھنے والی آسٹریلین سینیٹر پولین ہینسن احتجاجاً سیاہ  برقعہ پہن کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئیں جس سے بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور افراتفری مچ گئی۔

  نسل پرستانہ اقدام 

 رکن پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر نقاب پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا،لیکن انکی تجویز کو قبول نہیں کیاگیا،جسکے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب پولین ہینسن نے پارلیمنٹ میں برقع پہن کر احتجاجی مظاہرہ کیا۔جسے مسلم سینیٹرز نے نسل پرستانہ اقدام قرار دیا۔یاد رہے کہ 2017 میں بھی ہینسن نے اسی طرح کا قدم اٹھایا تھا، جب انہوں نے برقعہ کی مخالفت میں  پہلی بار پارلیمنٹ میں داخل ہو کر اس پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس واقعے نے آسٹریلیا میں نئی بحث کو جنم دیا،جس نے نسل پرستی کو پیدا کیا۔حکومت اور اپوزیشن سمیت کئی نے ہینسن کےاس  اقدام کی مذمت کی ہے، اور کچھ نے اس پر سرزنش کی کہ اس نے پارلیمنٹ کی عزت کو مجروح کیا ہے۔ 

ہینسن کی شدید مذمت

ہینسن کی اس حرکت نے ایوان بالا میں شدید غصے کے ماحول  کو پیدا کیا۔جس سے ارکان مشتعل ہو گئے اور انہیں برقعہ  ہٹانے کو کہا گیا۔جب انہوں نے انکار کیا تو پارلیمنٹ کی کاروائی روک دی گئی۔وہیں  نیو ساوتھ ویلز سے تعلق رکھنے والی مسلم سینیٹرمہرین فاروقی نے اس اقدام کو نسلی تعصب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہینسن ایک نسل پرست سینیٹر ہیں جو کھلے عام نسل پرستی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ جبکہ مغربی آسٹریلیا کی آزاد رکن پارلیمنٹ فاطمہ پیمان نے بھی اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا۔ اسکے علاوہ حکومت کے سینیٹ لیڈر پینی وونگ اور اپوزیشن کے ڈپٹی سینیٹ لیڈر این رسٹن دونوں نے بھی ہینسن پر سخت تنقید کی۔ وونگ نے کہا کہ یہ اقدام آسٹریلوی سینیٹ کے ایک رکن کے لیے ناگوار ہے۔

 اسلامی لباس کےخلاف مہم 

 کوئنز لینڈ کی نمائندہ ہینسن 1990 کی دہائی میں اپنے مضبوط امیگریشن مخالف خیالات اور پناہ کے متلاشیوں کی مخالفت کی وجہ سے مقبول ہوئی۔ ممبر پارلیمنٹ کے طور پر اپنے دور میں، اس نے بار بار اسلامی لباس کے خلاف مہم چلائی اور اس سے قبل 2017 میں پارلیمنٹ میں برقع پہن کر قومی پابندی کا مطالبہ کیا۔ ان کی ون نیشن پارٹی سینیٹ میں چار نشستیں رکھتی ہے۔