فیروز آباد کے دیہولی گاؤں میں 44 سال قبل ہوئے اجتماعی قتل عام کے معاملے میں عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے مجرم کپتان سنگھ، رام سیوک اور رامپال کو موت کی سزا سنائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تینوں پر 50،000 روپے کا مالی جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ملزمان کو پولیس حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ ملزمان کے وکلا ءاور استغاثہ نے اپنے اپنے مقدمات عدالت میں پیش کئے۔وہیں عدالت میں جاتے وقت تینوں ملزمان خود کو بے قصور قرار دے رہے تھے۔
بتا دیں کہ مین پوری میں 15 سال سے کیس کی سماعت چل رہی تھی۔ 11 مارچ کو، ڈکیتی عدالت کی جج اندرا سنگھ نے تینوں ملزمان کو اجتماعی قتل کا مجرم قرار دیا ،اور 18 تاریخ کو سزا سنانے کی تاریخ مقرر کی گئی ۔ جسکے بعد آج سزا سناتے ہوئے ان تینوں او سزائے موت سنائی گئی۔ایڈوکیٹ روہت شکلا نے کہا کہ اس معاملے میں(اجتماعی قتل عام ) 17 ملزمان تھے جن میں سے 13 کی موت ہو چکی ہے۔ جبکہ ایک ملزم گیان چند مفرور ہے۔
18 نومبر 1981 کو 3 گھنٹے تک فائرنگ ہوئی:
اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کونسل (ADJC) ایڈوکیٹ روہت شکلا کے مطابق 18 نومبر 1981 کی شام 5 بجے کے قریب مسلح شرپسندوں نے فیروز آباد کے جسرانہ تھانہ علاقے کے دیہولی گاؤں میں حملہ کیا۔ انہوں نے گھروں میں موجود خواتین، مردوں اور بچوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ شرپسندوں نے تین گھنٹے تک فائرنگ کی۔ اس فائرنگ میں 23 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ جبکہ ایک زخمی فیروز آباد ہسپتال میں دوران علاج دم توڑ گیا۔ اس قتل عام سے اس وقت کی حکومت اور انتظامیہ ہل گئی تھی.
17 لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی:
ایڈوکیٹ روہت شکلا نے بتایا کہ واقعہ کی ایف آئی آر 19 نومبر کو دہولی کے رہائشی لائک سنگھ نے جسرانا تھانے میں رادھیشیام عرف رادھے، سنتوش چوہان عرف سنتوشا، رام سیوکو دیگر کے خلاف درج کرائی تھی۔ اس کیس کی سماعت کچھ دنوں تک ضلعی عدالت میں ہوئی، لیکن چونکہ وہاں کوئی ڈکیتی عدالت نہیں تھی، اس لیے اسے پریاگ راج منتقل کر دیا گیا۔ وہاں سماعت کے بعد کیس کو دوبارہ مین پوری کی خصوصی جج ڈکیتی عدالت میں بھیج دیا گیا۔