Wednesday, July 02, 2025 | 07, 1447 محرم
  • News
  • »
  • سیاست
  • »
  • الیکشن کمیشن 345 پارٹیوں کا کرے گارجسٹریشن منسوخ۔ جانیں کیا ہےوجہ

الیکشن کمیشن 345 پارٹیوں کا کرے گارجسٹریشن منسوخ۔ جانیں کیا ہےوجہ

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Jun 26, 2025 IST     

image
الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پہلے مرحلے میں 345 رجسٹرڈ غیر تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں (RUPPs)  کو(ڈی لسٹ) فہرست سے ہٹانے کاعمل شروع کیا ہے۔  ایسی سیاسی پارٹیاں جو 2019 سے گذشتہ چھ برسوں میں ایک بھی الیکشن لڑنے کی ضروری شرط کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں ان پارٹیوں پر کاروائی ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ مختلف ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پھیلی ان پارٹیوں کے دفتر کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔
 
یہ اقدام چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کے ساتھ ساتھ الیکشن کمشنر سکھبیر سنگھ سندھو اور وویک جوشی کی قیادت میں آیا ہے۔ پولنگ پینل نے جمعرات کو جاری کردہ اپنے پریس بیان میں کہا کہ اس وقت  2,800 سے زائد RUPPs میں رجسٹرڈ ہیں۔ لیکن ان میں اکثراب عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے سیکشن 29A کے تحت جاری رجسٹریشن کے لیے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، متعلقہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف الیکٹورل آفیسرز (سی ای او) کو ان جماعتوں کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
 
"اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ کسی بھی پارٹی کو غیرضروری طور پر ڈی لسٹ نہیں کیا گیا ہے، متعلقہ ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سی ای اوز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایسے RUPPs کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کریں، جس کے بعد، ان جماعتوں کو متعلقہ سی ای اوز کے ذریعہ سماعت کے ذریعے ایک موقع دیا جائے گا"۔
 
ڈی لسٹ کرنے کا حتمی فیصلہ فریقین کے جوابات کا جائزہ لینے کے بعد  الیکشن کمیشن آف انڈیا  کے پاس ہوگا۔ ملک میں سیاسی جماعتیں (قومی/ریاست/RUPPs) عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے سیکشن 29A کی دفعات کے تحت 345 پارٹیاں  الیکشن کمیشن کے پاس  رجسٹرڈ ہیں۔
 
اس پروویژن کے تحت، کسی بھی ایسوسی ایشن کو ایک بار سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹر ہونے کے بعد بعض مراعات اور فوائد حاصل ہوتے ہیں، جیسے ٹیکس میں چھوٹ اور  دیگر سہولت  شامل ہیں۔
 
اس اقدام کو ناجائز فوائد کے لیے سیاسی رجسٹریشن کے غلط استعمال کو روکنے کی جانب ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور اس سے سیاسی عمل میں مزید شفافیت اور جوابدہی لانے کی امید ہے۔