Monday, November 24, 2025 | 03, 1447 جمادى الثانية
  • News
  • »
  • جرائم/حادثات
  • »
  • غازی آباد بس دھماکہ: ہائی کورٹ نے عدم ثبوت پر 28 سال بعد الیاس کو کیا رہا

غازی آباد بس دھماکہ: ہائی کورٹ نے عدم ثبوت پر 28 سال بعد الیاس کو کیا رہا

    Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: sahjad mia | Last Updated: Nov 24, 2025 IST

غازی آباد بس دھماکہ: ہائی کورٹ نے عدم ثبوت پر 28 سال بعد الیاس کو کیا رہا
الہ آباد ہائی کورٹ نے غازی آباد کے مودی نگر علاقے میں 1996 میں چلتی بس میں ہونے والے بم دھماکے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے محمد الیاس کو  بڑی راحت دیتے ہوئے با عزت بری کر دیا ہے۔28 سال بعد الیاس کو انصاف ملا ہے۔عدالت نے کہا کہ استغاثہ الیاس کے کردار کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا۔عدم ثبوت کی جوہ سے انہیں رہا کیا جاتا ہے۔
 
یہ فیصلہ جسٹس سدھارتھ اور رام منوہر نارائن مشرا کی بنچ نے 51 صفحات کے تفصیلی حکم میں سنایا۔ بنچ نے کہا کہ استغاثہ الزامات کو ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اور پولیس کی طرف سے ریکارڈ کیے گئے اعترافی بیان کو انڈین ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ 25 کے تحت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت نے کہا کہ الیاس کے خلاف قانونی طور پر کوئی درست ثبوت باقی نہیں تھا، اس لیے وہ اسے "بھاری دل کے ساتھ بری کر رہی ہے۔" دھماکے میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
 
واقعہ کیسے پیش آیا:
 
ایف آئی آر کے مطابق روڑکی ڈپو کی بس 27 اپریل 1996 کو تقریباً 3:55 بجے 53 مسافروں کے ساتھ دہلی سے روانہ ہوئی۔ موہن نگر بس میں مزید چودہ مسافر سوار ہوئے۔ شام 5 بجے کے قریب بس کے سامنے ایک زور دار دھماکہ ہوا جس میں 10 افراد موقع پر ہی ہلاک اور تقریباً 48 زخمی ہوگئے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فرانزک جانچ میں ڈرائیور کی سیٹ کے نیچے آر ڈی ایکس کے شواہد  سامنے آئے۔ دھماکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا۔
 
استغاثہ کی کہانی اور الزامات:
 
استغاثہ کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی پاکستانی شہری اور حرکت الانصار کے مبینہ کمانڈر عبدالمتین عرف اقبال نے کی تھی۔ الیاس اور تسلیم پر بھی ملوث ہونے کا الزام تھا۔ الیاس، اصل میں مظفر پور، بہار کا رہنے والا تھا، جو لدھیانہ میں رہ رہا تھا۔ 2013 میں ٹرائل کورٹ نے تسلیم کو بری کر دیا لیکن الیاس اور عبدالمتین کو عمر قید اور دیگر سزائیں سنائیں۔
 
اعتراف جرم پر ایک بڑا سوال:
 
ہائی کورٹ کے سامنے اصل مسئلہ یہ تھا کہ کیا الیاس کے اعترافی بیان کو ثبوت کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ جون 1997 میں گرفتاری کے بعد اس نے اپنے والد اور بھائی کے سامنے بم نصب کرنے کا اعتراف کیا تھا، جسے سی بی آئی افسر نے ٹیپ پر ریکارڈ کیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے پایا کہ نہ تو ٹیپ ریکارڈر پیش کیا گیا اور نہ ہی ریکارڈنگ کی صداقت ثابت ہوئی۔
 
گواہ کی گواہی ناکام:
 
استغاثہ نے کل 34 گواہ پیش کئے۔ مسافروں اور عینی شاہدین نے دھماکے کی تفصیل بیان کی تاہم کوئی بھی یہ نہیں بتا سکا کہ دھماکہ کس نے کیا۔کیونکہ بم دہلی کے آئی ایس بی ٹی سے بس کے جانے سے پہلے نصب کیا گیا تھا، اس لیے شناخت ناممکن تھی۔
 
حتمی فیصلہ
 
عدالت نے واضح طور پر کہا کہ الیاس کے ملوث ہونے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی قانونی ثبوت موجود نہیں۔ اس بنیاد پر عدالت نے ان کی اپیل کو قبول کرتے ہوئے ان کی عمر قید کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا۔