تلنگانہ حکومت نے حیدرآباد میں پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو مزید مستحکم کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ دوسرے مرحلے کے حصے کے طورپر حیدرآباد میٹرو ریل پراجکٹ کے فیس ٹو کی توسیع کی تجاویز مرکزی حکومت کو پیش کی گئیں۔ حیدرآباد ایئرپورٹ میٹرو لمیٹیڈ نے کہاکہ تمام ضروری دستاویزات کے ساتھ ان تجاویز کو حال ہی میں ریاستی حکومت نے منطور کیاہے۔ فیس ٹو کے تحت 86.1 کیلومیٹر کی کل لمبائی کے ساتھ تین نئے کوریڈور بنائے جائیں گے۔ اس کی تخمینہ لاگت 19 ہزار 579 کروڑ روپے ہوگی۔
اس پروجیکٹ کے ایک حصے کے طورپر راجیو گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے بھارت فیوچر سٹی تک 39.6 کلومیٹر کا راستہ 7 ہزار 168 کروڑ روپیوں کی لاگت سے تیار کیاجائے گا۔ اس کے علاوہ جوبلی بس اسٹیشن سے میڑچل تک 24.5 کیلومیٹر کا راستہ 6 ہزار 946 کرور روپیوں کی لاگت سے تیار کیا جائے گا۔ مرکزی حکومت کے جوائنٹ وینچر کے قواد کے مطابق فیس ٹو کی کل لاگت 19 ہزار 579 کروڑ میں تلنگانہ کا حصہ 30 فیصد ہوگا ۔ واضح رہے کہ چیف منسٹر ریونت ریڈی نے 19 جون کو دہلی میں مرکزی شہری امور کے وزیر منوہر لال کھٹر سے ملاقتا کے دوران اسے جلد منظوری دینے کی اپیل کی تھی۔
گرین فیلڈ ایکسپریس ہائی وے پر کام آخری مرحلہ میں:
اے پی اور تلنگانہ کو جوڑنے والے مرکز کے ذریعہ گرین فیلڈ ایکسپریس ہائی وے پر کام آخری مرحلہ میں پہنچ چکاہے۔ حکام اگست تک اس ہائی وے کو قابل رسائی بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ تلنگانہ کے کھمم سے آندھرا پردیش کے مشرقی گوداوری ضلع کے دیوراپلی تک کل 162 کلومیٹر طویل اس شاہراہ کی تعمیر کی جارہی ہے۔ ریاست تلنگانہ میں 89 کلومیٹر پر کام مکمل ہوچکا ہے۔فی الحال لوگ حیدرآباد سے وجئے واڑہ کے راستے وشاکھاپٹنم جا رہے ہیں۔ یہ شاہراہ جو 4 لین میں بنائی جا رہی ہے، تلنگانہ کے کھمم، ویرا، کلور، ساتھوپلی اور آندھرا پردیش میں ترووورو، جانگاریڈی گوڈم، گوروائی گوڈم اور دیوراپلی سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔اگر یہ شاہراہ دستیاب ہو جاتی ہے تو اس کی لمبائی 56 کلومیٹر تک کم ہو جائے گی۔اس شاہراہ پر کل 124 پل۔ 117 انڈر پاسز اور 9 بڑے پل بنائے گئے ہیں۔
حکام اسے 15 اگست تک دستیاب کرانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ باقی ماندہ کام اگست تک مکمل کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ شاہراہ حیدرآباد وشاکھاپٹنم کوریڈور کی ترقی کے حصے کے طور پر تعمیر کی جارہی ہے۔ یہ کام ستمبر 2022 میں 2200 کروڑ روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا تھا جبکہ اس شاہراہ کی تعمیر 2024 تک مکمل ہونا تھی لیکن مقامی زمین کے حصول اور دیگر وجوہات کی وجہ سے کام میں قدرے تاخیر ہوئی۔ فی الحال چونکہ اس شاہراہ پر کام آخری مرحلے میں پہنچ چکا ہے عہدیداروں کو امید ہے کہ باقی ماندہ کام بھی تیزی سے مکمل ہوجائیں گے۔