Saturday, July 05, 2025 | 10, 1447 محرم
  • News
  • »
  • کاروبار
  • »
  • نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر ہندوستانی انکیوبیٹروں(تربیتی اور ترقیاتی مرکز) کو سرکاری امداد کے بغیر آگے بڑھنے کے لیے پائیدار ترقیاتی ماڈل اپنانے میں مدد کررہا ہے

نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر ہندوستانی انکیوبیٹروں(تربیتی اور ترقیاتی مرکز) کو سرکاری امداد کے بغیر آگے بڑھنے کے لیے پائیدار ترقیاتی ماڈل اپنانے میں مدد کررہا ہے

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Jul 03, 2025 IST     

image
نئی دہلی  کے امیریکن سینٹر میں منعقدہ  نیکسَس انکیوبیٹر ہب  کے دو روزہ پروگرام میں ہندوستانی  انکیوبیٹروں کو خود کفیل بننے کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ  عالمی شراکت داری   کی تربیت بھی دی  گئی۔ 

کریتیکا شرما​

 

نئی دہلی میں  واقع امیریکن سینٹر ہندوستانی انکیوبیٹروں(تربیتی اور ترقیاتی مرکز) کو سرکاری امداد کے بغیر آگے بڑھنے کے لیے پائیدار ترقیاتی ماڈل اپنانے میں مدد کررہا ہے۔ امریکی سفارت خانہ کے نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب کے زیر اہتمام ایک دوروزہ تربیتی پروگرام میں ملک بھر سے آئے سینئر منیجروں کو تربیتی اور ترقیاتی مراکز کو عطیات پر تکیہ کیے بغیر چلانے کے نئے طریقوں سے روشناس کرایا گیا۔ واضح رہے کہ نیکسَس جدت طرازوں اور سرمایہ کاروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور انہیں  نیٹ ورک ، تربیت ، اطالیقوں اور مالی اعانت تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ 
 
یہ پہل صرف تربیت تک محدود نہیں بلکہ  یہ ایک حکمت عملی کے تحت کی جانے والی کوشش ہے جس کا مقصد  تربیتی اور ترقیاتی مراکز کو مالی طور پر خود کفیل بناکر ایک مضبوط اسٹارٹ اَپ نظام تشکیل دینا ہے۔ یہ اقدام فروری 2025 میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے اعلان کردہ یو ایس۔انڈیا ’کمپیکٹ‘ اور ’ٹرسٹ‘ اقدامات کے مطابق ہے، جن کا محور اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں، اختراع پر مبنی ماحولیاتی نظام اور اقتصادی لچک کے میدان میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔
 
پائیدار اسٹارٹ اپ کمپنی کا تصور:
 
سی ایس آئی آر ۔آئی آئی ٹی آر کے ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ اینڈ انوویشن سینٹر میں انکیوبیشن منیجر رینی سنگھ کہتی ہیں کہ تربیت میں  اُن کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ کارگزاری کے خاکہ کے لیے درست نوعیت کی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو چنا جائے۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’ اس سے سرمایہ کار وں کے تعلق سے اعتماد پیدا ہوتا ہے ۔ یہ پیش قدمی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہم ٹیکنالوجیوں کی کامیاب تجارت سے کمائی کریں۔‘‘
 
آئی آئی ایم ٹی کے بزنس انکیوبیٹر فاؤنڈیشن کے سی ای او ویبھو شرما کہتے ہیں کہ تربیت نے ’’ہماری سوچ اور طریقہ کار کو ازسرنو ترتیب دینے میں مدد کی۔ اب ہم پائیدار ماڈل تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یعنی اپنی خدمات کے بدلے اسٹارٹ اپ کمپنیوں سے فیس وصول کرنا۔‘‘
 
سنگھ اور شرما دونوں نے امریکی انکیوبیشن ماڈل (انکیوبیشن ماڈل ایک ایسا فریم ورک یا نظام ہے جس کا مقصد نئے کاروباری خیالات، تحقیقی منصوبوں یا اختراعی تصورات کو ابتدائی مراحل میں مکمل معاونت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کامیاب اور پائیدار منصوبے بن سکیں۔ اس ماڈل کے تحت اسٹارٹ اپ کمپنیوں  اور نوجوان محققین کو تربیت، رہنمائی، مالی معاونت، تکنیکی سہولیات، نیٹ ورکنگ اور مارکیٹ تک رسائی فراہم کی جاتی ہے)سے سیکھنے کی اہمیت کو اجاگر کیا، جو گاہک کی توثیق، عالمی سطح پر توسیع کی صلاحیت اور نظم و ضبط کے ساتھ ترقی پر زور دیتے ہیں۔ شرما کہتے ہیں ’’نقدی جھونکنے کے بجائے ہم نے بتدریج اور منافع بخش انداز میں ترقی کرنا سیکھا۔‘‘
 
ایسے پروگرام نہ صرف مقامی تربیتی اور ترقیاتی مراکز کو نئی شکل دیتے ہیں بلکہ امریکی کاروبار کے لیے بھی نئے مواقع کے دروازے کھولتے ہیں۔ امریکہ ، ہندوستانی  تربیتی اور ترقیاتی مراکز کو مزید مؤثر، مضبوط اور خود کفیل بنانے میں مدد دے کر ایسے مراکز کا ایک مربوط نظام تشکیل دے رہا ہے جو ہندوستانی منڈی میں داخل ہونے والے امریکی نو آموز کاروباروں کے لیے نرم آغاز کا موزوں ماحول فراہم کرتا ہے۔  شرما کہتے ہیں ’’ہم مقامی جغرافیہ اور چیلنجوں کو سمجھتے ہیں اور امریکی کمپنیوں کو ضوابط سے نمٹنے اور درست لوگوں سے رابطہ قائم کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔‘‘
 
سنگھ بھی اس پر اصرار کرتی ہیں کہ ہندوستانی کاروباری اور تجارتی مراکز مقامی بازار سے ناواقف امریکی کاروباروں کے لیے وسائل سے بھرپور رہنما کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہر ملک میں بازار کی اصل صلاحیت کو  تربیتی اور ترقیاتی مراکز ہی سب سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ہم اس میں شامل باریکیوں، مالی تقاضوں اور درکار افرادی قوت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ہم ایسی رہنمائی اور شراکت داری فراہم کر سکتے ہیں جو بازار میں داخلے کو آسان اور زیادہ کامیاب بناتی ہے۔‘‘
 
امیریکن سینٹر کی اس پہل کے مثبت اثرات پہلے ہی نمایاں ہونے لگے ہیں۔ شرما نے بتایا کہ ان کی اسٹارٹ اپ کمپنی میں سے ایک ’اے پی موبیلٹی‘ کو توسیع سے قبل مقامی سطح پر اپنی کارپولنگ سروس شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’انہوں نے ہماری یہ صلاح مانی کہ ترقی بتدریج اور قدرتی انداز میں ہو اور اب وہ بغیر کسی بھاری بھرکم  بازارکاری یا کسی کو ملازمت دینے پر بھاری خرچ کیے بغیر دہلی۔این سی آر اور منگلورو میں کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔‘‘
 
سنگھ نے ایک اور مثال شیئر کی اور بتایا کہ کس طرح انہوں نے پروگرام سے حاصل کردہ بصیرت کو ایک اسٹارٹ اپ  کمپنی کی جانچ کے اخراجات کم کرنے میں استعمال کیا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ہمارے ساتھ منسلک ایک کمپنی کو خون کے نمونوں کی جانچ کروانی تھی مگر کمپنی کو موصول ہونے والا بجٹ کا تخمینہ اس کی مالی حد سے تجاوز کر گیا۔ پہلے، ایک انکیوبیشن منیجر کے طور پر میں انہیں مالی بندوبست بہتر بنانے اور اضافی سرمایہ کاری کی جستجو کا مشورہ دیتی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’لیکن اس بار میں نے انہیں یہ صلاح دی کہ پہلے کم نمونوں کی جانچ کریں، بجٹ کے اندر رہیں اور انہی نتائج کی بنیاد پر مستقبل کے تجربات کو بہتر بنائیں۔‘‘
 
اس تربیتی پروگرام نے تربیتی اور ترقیاتی مراکز کو آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرنے کی بھی ترغیب دی۔ سنگھ نے کامیاب سابق طلبہ کو شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’’ہم نے محسوس کیا کہ ہم اپنے سابق طلبہ کو مشیر اور منصوبہ ساز  کے طور پر شامل کر کے اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ دراصل ہمارے انسانی وسائل کے مؤثر استعمال کا معاملہ ہے۔‘‘
 
دونوں شرکاء نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ کس طرح پروگرام میں انکیوبیشن کے عمل میں ہمدردی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ تربیتی اور ترقیاتی مراکز کو اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی صرف مالی نہیں بلکہ جذباتی سطح پر بھی معاونت کرنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں ’’بعض اوقات ہمدردی بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہےہمیں انہیں صرف کاروباری منصوبوں کے طور پر نہیں، بلکہ ایسے افراد کے طور پر دیکھنا چاہیے جو ایک غیر یقینی کاروباری سفر سے گزر رہے ہیں۔‘‘
 
دو طرفہ تبادلہ:
 
ان اجلاس نے امریکی  تربیت کاروں اور ہندوستانی تربیتی اور ترقیاتی مر اکز کے رہنماؤں کے درمیان باہمی طور پر  سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ سنگھ نے اسے ایک دو طرفہ تبادلہ قرار دیا: ’’ہم نےتربیت کاروں  سے سیکھا اور انہوں نے بھی ہمیں بتایا کہ وہ ہم سے سیکھنے کے تجربے کو قیمتی سمجھتے ہیں۔‘‘
 
مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے، دونوں منیجر امریکہ اور ہندوستان کے درمیان مزید گہرے تعاون کی گنجائش دیکھتے ہیں۔ سنگھ صحت ٹیکنالوجی اور ڈیپ ٹیک پر مرکوز مشترکہ پروگراموں کا خواب دیکھتی ہیں۔ ان کے خیال میں یہی شعبے دنیا میں اختراع کی اگلی لہر کی بنیاد بنیں گے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمارے پاس غیر معمولی صلاحیت موجود ہے، لیکن ہمیں عالمی سطح پر مطابقت اور تجارتی وسعت درکار ہے۔ یہیں پر ہمارے امریکی ہم منصب مدد کر سکتے ہیں۔‘‘
 
شرما اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ اختراع پر مبنی تعاون، جیسے سرحد پار ہیکاتھونس( تخلیقی پروگرام نویسی مقابلے) اور اسٹارٹ اپ ایکسچینج پروگراموں ، کو اگلے اہم قدم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ہمیں مشترکہ مسائل کی بنیاد پر ہیکاتھونس کا انعقاد کرنا چاہیے اور دونوں ممالک کے اسٹارٹ اپس کو مل کر ان کے حل تلاش کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ اسی انداز سے حقیقی شراکت داری کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘
 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی