پدم شری ایوارڈ یافتہ فوک گلوکارہ بیگم بتول کا ان کے آبائی گاؤں کیراپ میں شاندار اور تاریخی استقبال کیا گیا۔اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بیگم بتول نے کہاکہ میں ایک چھوٹے گاوں کی بیٹی ہوں۔ میں نے چالیس سال کی عمر میں پہلی مرتبہ طبلہ دیکھاتھا ۔ جس کے بعد میں نے آہستہ آہستہ یہ سب سیکھ لیا جس کے بعد میں نے مارواڑی گاے شروع کئے۔
واضح رہے کہ بیگم بتول نے اپنے گانوں کے ذریعے نہ صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے بلکہ سماجی دقیانوسی تصورات کو بھی توڑا ہے۔انہیں ان کی فنکارانہ کامیابیوں اور راجستھان کی لوک موسیقی کے ثقافتی تحفظ کے اعتراف میں پدم شری سے نوازا گیا ہے۔بتول بیگم راجستھان کے ناگور ضلع کے کیراپ گاؤں میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق میراسی برادری سے ہے جسے سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کے خاندان کے پاس آرام دہ زندگی گزارنے کیلئے وسائل کم تھے لیکن بتول نے بچپن میں ہی موسیقی میں دلچسپی ظاہر کی۔
گلوکارہ بیگم بتول نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اپنے موسیقی کے سفر کا آغاز آٹھ سال کی عمر میں مندر میں بھجن گا کر کیا۔ محدود تعلیم اور مشکل حالات کے باوجود بھجن گانے کو اپنا جنون بنا لیا۔ موسیقی کے ذریعے ہم آہنگی اور بھائی چارے کا پیغام پھیلانے والی بتول کو 2025 میں لوک فن اور منڈ گائیکی میں ان کی شاندار شراکت کے لیے پدم شری سے نوازا گیا۔ انہیں 2021 میں ناری شکتی پراسکر سے بھی نوازا گیا تھا۔ س میں بین الاقوامی اسٹیج، اور اولمپکس شامل ہیں۔
بتول کے شوہر، فیروز خان، جو ریاستی حج کمیٹی کے چیئرمین تھے، نے کہا کہ پورے خاندان نے ہمیشہ بیگم کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیلنٹ کو کبھی دبانا نہیں چاہیے۔ وقت بدل رہا ہے، لیکن ہنر اپنی راہ خود ہموار کرتا ہے۔ بتول کے بیٹوں کو اپنی ماں پر فخر ہے۔ بیٹا جے پور میں ایک بینک منیجر ہے، جب کہ دوسرے بیٹے بیرون ملک تقریبات میں اپنی ماں کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے ہیں۔ صرف پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والی بتول کی شادی سولہ سال کی عمر میں کر دی گئی۔ اپنی لگن اور موسیقی کی صلاحیتوں کے ذریعے، اس نے ایک ایسا مقام حاصل کیا جو آنے والی نسلوں کے لیے متاثر کن ہے۔