امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا نے انڈونیشیا کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وہاں سے آنے والی اشیا پر 19 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا۔ ٹرمپ نے کہاکہ وہ ایسے مزید معاہدے کر رہے ہیں تاکہ امریکہ کا تجارتی خسارہ کم ہو اور امریکہ کو بہتر شرائط پر تجارت مل سکے۔یہ معاہدہ یکم اگست سے پہلے کیا گیا ہے جب امریکہ زیادہ تر درآمدات پر محصولات بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس وقت امریکہ اور اس کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر یوروپی یونین کے درمیان بھی مذاکرات جاری ہیں لیکن اگر یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو یورپی یونین جوابی کارروائی کرسکتی ہے۔
امریکہ دوسرے ممالک سے بھی بات چیت کر رہا ہے۔ بہت سے ممالک امریکہ میں اپنے سامان پر مزید محصولات سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی اکثر اچانک اور غیر مستحکم ہو جاتی ہے جس سے دنیا بھر کی مارکیٹوں میں ہنگامہ آرائی ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ کی اوسط ٹیرف کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوسکتاہے۔ تاہم اگر لوگوں کے خریداری کے انداز میں تبدیلی آتی ہے تو اس شرح میں کچھ کمی بھی ہوسکتی ہے۔
انڈونیشیا نے ٹرمپ کی شرائط کیسے قبول کیں؟
انڈونیشیا کے وزیر ایرلانگا ہارتارٹو نے گزشتہ ہفتے امریکی حکام سے ملاقات کی۔ انہوں نے امریکہ سے آنے والی 70 فیصد اشیا پر ٹیکس ختم یا کم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس کے ساتھ توانائی، معدنیات، زراعت اور دفاع کے شعبوں میں بڑے سودوں کی پیشکش کی گئی۔ تاہم، ٹرمپ اس سے مطمئن نہیں تھے اور آخر کار انڈونیشیا کو 19 فیصد ٹیرف پر رضامند ہونا پڑا۔ اب دونوں ممالک ایک مشترکہ بیان تیار کر رہے ہیں جس میں اس معاہدے کی تمام شرائط اور تفصیلات شامل ہوں گی۔
بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی؟
ٹرمپ کی یہ ٹیرف حکمت عملی پہلے بھی کئی ممالک کے ساتھ دیکھی جا چکی ہے۔ اس نے چین، برطانیہ، ویت نام جیسے ممالک کو خبردار کیا یا سمجھوتہ کیا۔ اب بھارت کی باری ہو سکتی ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان جیسے ممالک امریکہ کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ امریکہ نے بھارت کو یکم اگست 2025 سے بھاری محصولات عائد کرنے کی تنبیہ بھی کی ہے، اگر بھارت نے بروقت کوئی معاہدہ نہ کیا تو بھارتی مصنوعات پر بڑا ٹیکس لگایا جا سکتا ہے، جس سے بھارت کی برآمدی صنعت کو بھاری نقصان ہو سکتا ہے۔
بھارت امریکہ تجارتی معاہدے پر ہلچل تیز:
بھارتی حکومت اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے سرگرم ہوگئی ہے۔ محکمہ تجارت کے اسپیشل سیکریٹری راجیش اگروال کی قیادت میں ہندوستانی حکام کی ایک ٹیم واشنگٹن پہنچ گئی ہے۔ ان کا مقصد یکم اگست کی ڈیڈ لائن سے پہلے زراعت اور ڈیری مصنوعات سے متعلق مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ ساتھ ہی مرکزی وزیر پیوش گوئل نے بھی کہا ہے کہ تجارتی معاہدے کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ بات چیت تیزی سے جاری ہے اور ہندوستان جلد ہی ایک متوازن اور فائدہ مند معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔