Wednesday, December 24, 2025 | 04, 1447 رجب
  • News
  • »
  • تعلیم و روزگار
  • »
  • امریکی اسٹیم شعبہ جات کی برتری کا تجربہ

امریکی اسٹیم شعبہ جات کی برتری کا تجربہ

    Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Dec 24, 2025 IST

امریکی اسٹیم  شعبہ جات کی برتری کا تجربہ

چنئی کا  امیریکن سینٹرتفاعلی اسٹیم اور اسپیس کیمپس کے ذریعے نوجوان ہندوستانی طلبہ کو امریکی اختراع اور قیادت سے رابطے میں آنے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔

ظہور حسین بٹ

چنئی کے امیریکن سینٹر میں جولائی ۲۰۲۵ء سے ہر جمعرات کے دن جوش و خروش کا ایک نیا رنگ مشاہدے میں آتا ہے۔ اس دن یہاں ہائی اسکول کے طلبہ ’’امیریکن ایکسیلنس اِن اسٹیم ‘‘ پروگرام کے لیے جمع ہوتے ہیں تاکہ وہ امریکہ کے موجدوں، اسٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی) کے میدانوں میں اس کی جدت طرازی اور خلا کی کھوج میں اس کی مہارت کے بارے میں سیکھ سکیں۔ طلبہ ’’مائیکرو بِٹس‘‘ سے کوڈنگ کرتے ہیں، ’’سنیپ سرکٹس‘‘ بناتے ہیں، تھری ڈی پرنٹرس پر کام کرتے ہیں اور ناسا سے متعلق لیگو ماڈلس تیار کرتے ہیں۔یہ تمام سرگرمیاں امریکہ کے اُس تعلیمی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں جو اسٹیم تعلیم میں تجربات پر مبنی پڑھائی پر زور دیتا ہے۔یہ سلسلہ وار پروگرام ’’امریکہ ۲۵۰‘‘ تقریبات کا ایک حصہ ہے جو ملک کی سائنسی اختراع کی طویل روایت کو اجاگر کرتا ہے۔ عملی اسٹیم سرگرمیوں اور خود رفتار (سیلف پیسڈ) تعلیم کے ذریعے طلبہ امریکی سائنسی تحقیق کے قومی رویے کا براہِ راست تجربہ کرتے ہیں اور یہ دریافت کرتے ہیں کہ تجربہ اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت کس طرح امریکہ کے سائنسی اور خلائی تحقیق کے طریقوں کو تشکیل دیتی ہے۔

علمی برتری سے واقفیت

کئی طلبہ کے لیے سب سے دلچسپ پہلو امریکہ کے اس کردار کو سمجھنا تھا جو اُس نے اسٹیم تعلیم اور خلائی تحقیق میں پیش رفت کے لیے ادا کیا، خاص طور پر اپولو ۱۱ کے چاند پر اترنے جیسے سنگِ میل۔

سر سیوا سوامی کلا لایا سینئر سیکنڈری اسکول (ایس ایس کے ایس ایس ایس) کی گیارہویں جماعت کی طالبہ سہانا جے کہتی ہیں کہ نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر پہلا قدم رکھنے کا کارنامہ اور امریکہ کے موجودہ مریخ مشن کے عزائم، اس ملک کے پیش رو جذبے کی نمایاں مثالیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’مجھے سب سے زیادہ یہ بات متاثر کرتی ہے کہ امریکہ نے بڑے خواب دیکھنے کی جسارت کی اور انہیں حقیقت میں بدلنے کا حوصلہ دکھایا۔‘‘ یہی جذبہ خلا اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کی شاندار کامیابیوں کا محرک رہا ہے۔

ان کی ہم جماعت الوینا ایڈلن جی اور اینیا راجیش، جو سیکریڈ ہارٹ میٹریکولیشن ہائر سیکنڈری اسکول (ایس ایچ ایم ایچ ایس ایس) کی طالبات ہیں، بھی اس بات کی معترف ہیں کہ امریکہ جدّت کے ذریعے قیادت کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور خلائی مشنوں میں پیش رفت نے ہمیں یہ دکھایا کہ جرأت مند خیالات کس طرح مستقبل کی سمت متعین کر سکتے ہیں۔‘‘

تجربات پر مبنی تعلیم
 

ان کیمپوں کی خاص بات ان کا خود رفتار اور جستجو پر مبنی ڈیزائن ہے، جو امریکی اسٹیم تعلیم کے اُن اصولوں سے متاثر ہے جو تجربے، تخلیقی سوچ اور خود مسئلہ حل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جے گوتم، جو ایس ایس کے ایس ایس ایس کے گیارہویں جماعت کے طالب علم ہیں، اس تجربے میں دی جانے والی آزادی کو سب سے قیمتی پہلو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’پہلے ہمیں خود کوشش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے اور جب کہیں پھنس جاتے ہیں تو راہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ اس سے سیکھنے کا عمل نہایت دلچسپ ہو گیا ہے۔‘‘

شرکاء نے اس بات کو بھی سراہا کہ منتظمین نے کس طرح اُن سے بات چیت کی اور فلکیات اور خلا کی تاریخ جیسے مضامین کو ان کے لیے آسان اور دلچسپ بنایا۔

آٹھویں جماعت کی طالبہ رشیکا کو الیکٹرانک سرکٹ کٹس پر کام سب سے زیادہ دلچسپ لگا۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے سیکھا کہ سرکٹس کس طرح جڑ کر الارم کو بجاتے یا پنکھے کو چلاتے ہیں۔‘‘ دسویں جماعت کی طالبہ وی نکشترا کے لیے تھری ڈی پرنٹر پر تجربہ سب سے یادگار ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں ’’چھوٹے ماڈلز ڈیزائن کرنا اور پھر انہیں حقیقت میں ڈھلتے دیکھنا تخلیقی صلاحیت اور انجینئرنگ کا بہترین امتزاج تھا۔‘‘

امریکہ کی اسٹیم اور خلائی کامیابیوں پر مبنی کوئز نے بھی طلبہ کی دلچسپی کو مہمیز کیا ۔ گیارہویں جماعت کے طالب علم آر ماگیشور کہتے ہیں ’’پہلے مجھے اسٹیم میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی، لیکن اس کوئز نے مجھ میں مزید سیکھنے کا شوق پیدا کیا۔‘‘

ان سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ مسئلہ حل کرنے، ٹیم ورک اور تخلیقی سوچ جیسی اہم ہنر سیکھتے ہیں۔ یہ وہ مہارتیں ہیں جو امریکی اسٹیم پروگراموں میں اختراع اور سائنسی دریافت کے فروغ کے لیے مرکزی اہمیت رکھتی ہیں۔ سرکٹس تیار کرنا اور کوڈنگ جیسے تجربات نے انہیں یہ سکھایا کہ نظریاتی تصورات کو نئے اور عملی طریقوں سے کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

مستقبل کی تحریک

ان عملی تجربات نے نہ صرف سائنس کو دلچسپ بنایا بلکہ طلبہ کے خوابوں اور پیشہ ورانہ راستوں کو بھی نئی سمت دی۔

نکشترا کہتی ہیں ’’اسٹیم شعبہ جات میں امریکی مہارت ‘‘ جیسے پروگرام نے انہیں ایرو اسپیس انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے کے اپنے ارادے کو مزید پختہ کر دیا۔ ایس ایچ ایم ایچ ایس ایس کی نویں جماعت کی طالبہ زیا مریم تھاڈی کہتی ہیں ’’اس تجربے نے مجھے سائنس اور ٹیکنالوجی کے عجائبات سے روشناس کرایا۔ اب میری خواہش ہے کہ میں اسٹیم کے شعبے میں تعلیم حاصل کروں۔‘‘

ایس ایس کے ایس ایس ایس کی نویں جماعت کی طالبہ نیویتھیتھا کے ایم کہتی ہیں کہ اس پروگرام نے انہیں خلا سے متعلق جدت اور اس کے ہماری دنیا پر اثرات کے بارے میں نئی بصیرت اور تجسس دیا۔ وہ کہتی ہیں ’’یہ میرا چنئی کے امیریکن سینٹر کا پہلا دورہ تھا اور اس نے مجھے امریکہ کی خلائی کامیابیوں کے بارے میں مزید جاننے کا اشتیاق دیا۔ اس تجربے نے یہ بھی سکھایا کہ خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے محنت اور ثابت قدمی ضروری ہیں۔‘‘

 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی