مدھیہ پردیش اسمبلی میں اپوزیشن کے ایم ایل اے عارف مسعود کے ایک سوال کے جواب میں حکومت کی طرف سے منگل کو پیش کیے گئے اعداد و شمار نہ صرف چونکانے والے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود ذات پات اور صنفی تشدد کی بھیانک سچائی کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں، یعنی 2022 سے 2024 کے درمیان، ریاست میں کل 7418 درج فہرست ذات (SC) اور درج فہرست قبائل (ST) خواتین کی عصمت دری کی گئی، 558 کو قتل کیا گیا، اور 338 خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روزانہ اوسطاً 7 دلت یا قبائلی خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔
یہی نہیں، 1906 خواتین کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جس کا مطلب ہے کہ ہر روز دو ایس سی/ ایس ٹی خواتین کو اپنے ہی گھر میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے 5983 معاملے درج کیے گئے، یعنی ریاست میں ہر روز 5 ایس سی/ ایس ٹی خواتین جنسی ہراسانی کا شکار ہوئیں۔ کل 44,978 جرائم رپورٹ ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ روزانہ اوسطاً 41 دلت یا قبائلی خواتین کسی نہ کسی شکل میں جرم کا نشانہ بنتی ہیں۔
مدھیہ پردیش کی کل آبادی کا تقریباً 38فیصد حصہ SC/STبرادریوں سے آتا ہے، جن میں سے 16فیصد SC ہیں۔اور 22فیصدSTہیں۔ اعداد و شمار سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ قبائلی خواتین(آدیواسی) جنسی اور مہلک جرائم کا زیادہ شکار ہوئیں، جب کہ دلت خواتین کو زیادہ گھریلو تشدد اور چھیڑ چھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ اتنے بڑے پیمانے پر جرائم ظاہر کرتے ہیں کہ معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقات کی خواتین اب بھی سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
یہ اعدادوشمار سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ہمارے قوانین، ہمارا نظام اور ہماری سوچ ابھی تک ان طبقوں کی خواتین کے تحفظ کی ضمانت دینے سے قاصر ہے اور سب سے سنگین سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف اعداد و شمار ہیں یا ہزاروں جانوں کی چیخیں جو کبھی عدالت تک نہیں پہنچی۔یا ہمارے سماج کا ایک سیاہ سچ۔جو دم توڑ رہی ہے۔جنکے بارے میں باتیں تو سب کرتا ہے۔ مگر ایک ووٹ بینک کے لیے ۔ہر انتخابات میں یہ سیاست کا ایک حصہ ہوتا ہے۔