امریکی محققین نے ایک نیا جنریٹیو مصنوعی ذہانت (AI) ٹول تیار کیا ہے جو انسانوں میں H5N1 وائرس — یعنی برڈ فلو — کے ممکنہ اثرات کو تیزی سے شناخت کر سکتا ہے۔ یہ تحقیق معروف جریدے کلینیکل انفیکشس ڈیزیزز میں شائع ہوئی ہے، اور ماہرین کے مطابق یہ طریقہ کار قومی سطح پر نگرانی کو مضبوط بنا سکتا ہے کیونکہ وائرس جانوروں میں پھیلتا جا رہا ہے۔
اے آئی ٹول کیسے کام کرتا ہے؟
یہ سسٹم الیکٹرانک میڈیکل ریکارڈز کو اسکین کرتا ہے اور ایسے مریضوں کو نمایاں کرتا ہے جن میں H5N1 سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق، یہ ٹول صرف 26 منٹ لیتا ہے اور فی مریض لاگت محض 3 سینٹ ہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ اسکول آف میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر کیتھرین ای. گُڈمین نے کہا:
“یہ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ جنریٹیو اے آئی صحت عامہ کے نظام میں ایک بڑا خلا پُر کر سکتی ہے، اور ان ہائی رسک مریضوں کو پہچان سکتی ہے جو ورنہ نظرانداز ہو جاتے۔”انہوں نے مزید کہا کہ اصل خطرہ نگرانی کی کمی ہے۔ “چونکہ ہم یہ نہیں جان رہے کہ کتنے مریض برڈ فلو کی علامات کے ساتھ آ رہے ہیں اور ان میں کتنے ٹیسٹ ہو رہے ہیں، اس لیے ممکنہ انفیکشن پوشیدہ رہ سکتے ہیں۔”
بڑے پیمانے پر ڈیٹا کا تجزیہ
تحقیق میں محققین نے 13,494 مریضوں کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ وزٹ کا تجزیہ کیا، جن کا تعلق شہری، دیہی اور نواحی علاقوں سے تھا۔ ان مریضوں میں زیادہ تر کو سانس کی شدید تکالیف یا آنکھوں کی سوزش (کنجیکٹیوائٹس) تھی، جو H5N1 کے ابتدائی علامات سے میل کھاتی ہیں۔
اے آئی ٹول نے 76 مریضوں کو ہائی رسک کے طور پر نشان زد کیا، مثلاً وہ افراد جو پولٹری فارم، مویشیوں کے ساتھ یا بطور قصائی کام کرتے ہیں۔ مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 14 مریضوں نے حالیہ دنوں میں ایسے جانوروں سے براہِ راست رابطہ کیا تھا جو H5N1 کے کیریئر ہیں، جیسے جنگلی پرندے، مرغیاں اور گائے۔
ابتدائی شناخت، حتمی تصدیق نہیں
ان مریضوں کا مخصوص H5N1 ٹیسٹ نہیں کیا گیا، اس لیے ان کے انفیکشن کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم محققین نے کہا کہ اے آئی نے ہزاروں عام نزلہ و زکام اور موسمی فلو کے کیسز میں سے ان “سوئی ڈھیر میں” جیسے کیسز کو کامیابی سے نکالا۔
ماہرین کے مطابق، یہ طریقہ کار امریکہ میں ابھرتی ہوئی وباؤں کی نگرانی کے لیے ایک قومی کلینکل سینٹینل نیٹ ورک قائم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔