بنگلہ دیش میں انقلاب منچ کے ترجمان شریف عثمان ہادی کے قتل کے معاملے پر ہنگامہ جاری ہے۔ اب اس معاملے میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ عثمان کے بھائی شریف عمر ہادی نے محمد یونس کو ہی قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ حکومت کے لوگوں نے آنے والے قومی انتخابات کو پٹڑی سے اتارنے کے لیے ان کے بھائی کے قتل کی سازش رچی ۔
عمر کا یونس انتظامیہ پر شدید حملہ:
بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی سٹار کی رپورٹ کے مطابق ہادی کے بڑے بھائی عمر نے ڈھاکہ میں انقلاب منچ کی جانب سے منعقدہ 'شہیدی شوپوتھ' پروگرام کے دوران کہا، "تم لوگوں (یونس انتظامیہ) نے ہی عثمان ہادی کو مار ڈالا ہے اور اب تم اسے ایک ایشو بنا کر انتخابات کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہو۔ میرے بھائی چاہتے تھے کہ فروری تک بنگلہ دیش میں قومی انتخابات ہو جائیں، لیکن انتظامیہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔
عمر نے شیخ حسینہ جیسے انجام کی وارننگ دی:
عمر نے اپنے بھائی کی خواہش کا احترام کرنے اور حکام سے انتخابی ماحول کو متاثر نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا، "قاتلوں کے خلاف جلد مقدمہ چلایا جائے تاکہ انتخابی ماحول میں رکاوٹ نہ آئے۔ حکومت کیس کی تفتیش میں کوئی ٹھوس پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر عثمان کو انصاف نہ ملا تو تم بھی ایک دن بنگلہ دیش سے بھاگنے (شیخ حسینہ کے تختہ الٹنے کے دوران ان کے بھارت بھاگنے) پر مجبور ہو جاؤ گے۔
عمر نے عثمان کے قتل کی وجہ بھی بتائی:
عمر نے مزید دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی کا قتل اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ کسی ایجنسی یا غیر ملکی آقاؤں کے سامنے جھکے نہیں تھے۔ وہ ملک میں جلد از جلد انتخابات کروا کر مستحکم حکومت بنانا چاہتے تھے۔اس دوران مظاہرے میں موجود دیگر مظاہرین نے واضح کیا کہ وہ سڑکوں پر ڈٹے رہیں گے اور عثمان کو انصاف ملنے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وہ عثمان کو انصاف دلانے کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔
بنگلہ دیش کی خودمختاری کو تباہ کرنے کی سازش: جابر
انقلاب منچ کے رکن سکریٹری عبداللہ ال جابر نے الزام لگایا ہے کہ عثمان کا قتل جولائی بغاوت کی کامیابیوں اور بنگلہ دیش کی خودمختاری کو تباہ کرنے کی گہری سازش کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا، عثمان کے قتل میں بین الاقوامی خفیہ ایجنسیاں اور ملک کے اندر فعال فاشسٹ اتحادی ملوث تھے۔ حکومت مقررہ وقت میں تفتیش کے ذریعے قاتلوں کو عوام کے سامنے پیش کرے، ورنہ وہ اپنا احتجاج تیز کر دیں گے۔
عثمان کے قتل کے بعد سے بنگلہ دیش میں جاری تشدد:
11 دسمبر کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے اگلے دن یعنی 12 دسمبر کو ڈھاکہ میں عثمان کو قریب سے گولی مار دی گئی تھی۔ بعد میں انہیں 15 دسمبر کو علاج کے لیے سنگاپور بھیجا گیا، لیکن 18 دسمبر کو ان کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد پورے بنگلہ دیش میں وسیع اور پرتشدد احتجاج شروع ہو گئے۔ انقلاب منچ نے وارننگ دی ہے کہ انصاف نہ ملنے پر وہ عبوری حکومت کو ہٹانے کا عوامی تحریک شروع کر دے گا۔
جولائی بغاوت کا ایک اہم لیڈر تھا عثمان:
عثمان جولائی بغاوت کے ایک اہم لیڈر تھے۔ اسی جولائی بغاوت کی وجہ سے سابق وزیراعظم حسینہ کی حکومت گر گئی تھی۔ عثمان کو اگلے سال فروری 2026 میں ہونے والے قومی انتخابات میں ڈھاکہ-8 سیٹ سے ممکنہ امیدوار سمجھا جا رہا تھا۔ انہوں نے اپنا نام بھی آگے کر دیا تھا۔ عثمان کے قتل کے بعد چیف ایڈوائزر یونس کی قیادت والی عبوری حکومت نے 20 دسمبر کو قومی سوگ کا دن قرار دیا تھا۔