جنہیں ملک و ملت کا مستقبل کہا جاتا ہے، جن پر ملک کی ترقی و تنزلی موقوف ہوتی ہے، جنکے کارنامے تاریخی صفحات کے زینت بنتے ہیں، کامیابی جنکے رگوں میں چھپی ہوتی ہے، جستجو جنکا شیوہ ہوتا ہے، تمنائیں جنکی آسمانوں سے جڑی ہوتی ہیں، بازوں جنکے مضبوط اور توانا ہوتے ہیں، نگاہیں جنکی دور بین ہوتی ہیں، قدموں میں جنکے لرزہ نہیں ہوتا، حوصلے جنکے بلند ہوتے ہیں انہیں نوجوان نسل کہتے ہیں، اگر نوجوانوں کی جوانی بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے تو قوم کا راہ راست پر رہنے کی توقع ختم ہو جاتی ہے کیونکہ یہی وہ نوجوان ہوتے ہیں جو اپنی طاقت اور شجاعت کے بل بوتے چلتی ہوئی ہواؤں کا رخ موڑ نے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چلتی ہوئی ظلم و ستم کی چکی کو بھی روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اڑتے ہوئے پرندوں پر قابو پانے کاہنر رکھتے ہیں، دل و دماغ سے جو ٹھان لیتے ہیں اسے انجام تک پہنچاہی دیتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس آج نوجوانوں کی حالت پر، آج کے اور ماضی کے نوجوانوں پر ذرا نظر ڈالیں اور اندازہ لگائیں کہ آج کے مسلم نوجوان وہ کس رخ کی جانب بہتے ہوۓ جارہے ہیں؟
ماضی میں تو ایسے مسلم نوجوان ہوتے تھے جنکے ہاتھوں میں ملک و ملک کی ترقی کے لئے ہمہ وقت تلواریں ہوا کرتی تھیں اور آج کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کرکٹ کا بلا نظر آتا ہے، ماضی کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قرآن پاک کے نسخے ہوا کرتے تھے لیکن آج کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کمیونزم اور عریاں رسالے نظر آتے ہیں، ماضی کے نوجوانوں کے زبانوں سے تکبیر اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوتے تھے لیکن آج کے نوجوانوں کے زبانوں سے بے حیائ کے نعرے سننے میں آتے ہیں، یہی وجوہات ہیں جسکی بنا پر آج ملت کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اگر آج کی نوجوان نسل ماضی کے مسلم جوانوں کی صفحات کو کھنگال کر انکی صفات کو اپنے اندر دوبارہ پیدا کرلیں تو شاید آج مسلم قوم و ملت کی نیا ٹھکانے لگ جائے، آج اگر مسلم جوانوں کی نسل قرآن و حدیث کو اپنے سینوں سے لگا لیں تو تلواریں انکے ہاتھوں کی ضمانت لے لیں، اگر آج مسلم جوانوں کی نسلیں اقبال کی شاعری کو اپنے اذہان میں بسا لیں تو ملت کی تقدیریں بلد جائیں، اقبال ہمیشہ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ نوجوانوں کے لئے میرا کلام سمجھنا آسان کردے تاکہ میرے شعروں کی دانائی انکے دلوں کے اندر اتر جائے اور وہ ملک و ملت کی فلاحی میں اپنا ویسا ہی نام درج کرا سکیں جیسے صلاح الدین ایوبی نے کرایا تھا۔
اسی لئے اقبال نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرماتے تھے کہ :
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہے۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر،
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر۔
قارئین! اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کے لئے شاہین کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ انکی آرزو تھی کہ امت مسلمہ کے نوجوان ایک شاہین صفت بن جائیں جس طرح شاہین بلند پرواز ہوتا ہے، نگاہوں سے تیز ہوتا ہے، جس طرح شاہین دوسروں کے ہاتھوں مارا ہوا شکار نہیں کھاتا اسی طرح ایک مرد مؤمن کی بھی سوچ ہونی چاہئے کہ وہ خود کے اندر خوداری اور غیرت مندی پیدا کرے، جس طرح شاہین کی نگاہیں تیز ہوتی ہیں اسی طرح ایک مرد مؤمن کو بھی بصیرت پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ تجسسات کی دنیا میں غوطہ لگا کر ملت کو نئی چیزوں سے آشنا کرا سکے اور کائنات کے رازوں سے پردہ ہٹا سکے، جس طرح شاہین زمین پر رہ کر فضاؤں میں اپنا رزق تلاش کرتا ہے اور اپنی بھوک و پیاس کو بھی اس دنیا کی پستی سے بلند رہ کر ہی مٹاتا ہے اسی طرح ایک مرد مؤمن کو بھی پستیوں سے نکل کر بلندیوں کی طرف گامزن ہوکر، آسمان کی اونچائیوں کو دیکھ کر اپنی منزلوں کا تعین کرنا چاہیے، جس طرح شاہین اپنی پروازوں سے نہ کبھی گھبراتا ہے نہ ہی کبھی ہارتا ہی اسی طرح ایک مرد مجاہد کو بھی ہمت و بہادری سے کام لینا چاہیے۔
اقبال کہتے ہیں جس دن شاہین کی صفات مسلم نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں گی اسی دن یہ نوجوان بلندیوں اور رفعتوں تک پہنچ جائیں گے اور جب بلندیوں پر پہنچے گے تو معرفت الٰہی کے دروازے ان پر کھل جائیں گے، انکے اندر ایمان کی وہ قوت پیدا ہو جائے گی کہ صحرا کو بھی وہ ذرہ بنا کر رکھ دیں گے، قطرہ ہوگا تو دریا بنا کر رکھ دیں گے، کرنوں کو آفتاب کی شکل دے دیں گے، موجوں کی طرح وہ گیت نہیں گائیں گے بلکہ طوفان کی طرح ہنگامہ برپا کر دیں گے، سمندروں کی تہہ میں پہنچ کر موتیوں کو باہر نکال کر پھینک دیں گے، باطل کو تہہ و بالا کر دیں گے، جلتی ہوئی انگاروں میں کود کر اپنا حق چھین لیں گے، ظالموں کا تعاقب انکے گھروں میں گھس کر کرنے لگیں گے۔