Friday, October 18, 2024 | 1446 ربيع الثاني 15
Latest

زنگی ایک فلسفہ ہے،جسکا نام احساس بیداری ہے

زنگی ایک فلسفہ ہے جسے سمجھنے اور سمجھانے کےلئے کئی  لوگوں نے اپنی زندگی کے لمبے حصہ کو تجربے میں مشغول کر دیا، کچھ تو وہ لوگ ہیں جنکے نزدیک زندگی کا فلسفہ قرآن کے الفاظ میں اس طرح ہے: دنیاوی زندگی بس اسی کا نام‌ ہے، کہ زندہ رہیں اور مرجائیں، اور مرنا بھی حکم الٰہی سے نہیں بلکہ گردش زمانہ کی موت مرنا ہے۔(سورہ الجاثیہ 24)۔
 
اور بعض لوگوں کے نزدیک زندگی کا فلسفہ معدہ اور پیٹ کا بھرنا ہے، کہتے ہیں کہ زنگی کی یہ روانی اور بھاگ دوڑ صرف اس وجہ سے ہے کہ انسان اور اسکے اہل و عیال کو کھانے کے دو لقمے اور روٹی کے دو ٹکڑے مل‌ جائیں۔
ایسے لوگ آمدنی کے اعتبار سے خود کو آزاد اور خودمختار سمجھتے ہیں، حلال و حرام، جائز و ناجائز کو پس پشت رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی کچھ ایسے بھی ہیں جو فقط دنیا کی رنگینیوں میں خود کو مصروف کرنے کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں،
 
یاد رہے کہ اسلام ایک دین حق ہے، قانون فطرت ہے، زندگی سے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر مذکورہ بالا دونوں فلسفوں سے بالکل مختلف ہے۔
اسلام کے فلسفۂ زندگی میں جمود و تعطل، سستی اور کاہلی کا سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ اسلام کے نزدیک زندگی نام‌ ہے بندگی کا، فرمانبرداری کا، جیساکہ فرمان باری ہے:
میں نے تمام‌ انسان اور جنات کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ (سورہ ذاریات 56)۔
اسلام  سستی و کاہلی کے مخالف ہے، کیونکہ جب تک انسان سستی اور کاہلی میں رہے گا تب تک عبادت و ریاضت نہیں کرپائے گا، عبادت و بندگی کرنے کے لئے جمود و تعطل کو ختم کرنا ہوگا، سستی اور کاہلی سے نکلنا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ عبادت ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ کیونکہ بہت سے لوگوں نے عبادت کے دائرے کو محدود کردیا ہے، اور کہتے ہیں صرف نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ ہی عبادت ہی، دنیاوی معاملات میں اسکی کوئی گنجائش نہیں، یعنی کہ دنیاوی امور میں عبادت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﻮﻧﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺩﮬﻨﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﻮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﮐﺮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮨﮯ۔
 
اسکے علاوہ اللہ نے ہمیں اپنا خلیفہ بھی بنایا ہے جیسا کہ فرمان باری ہے:
اور جب تیرے رب نے فرشتوں کو کہا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ (سورہ بقرہ 30).
 
معلوم ہوا کہ ہمیں اللہ کی عبادت بھی کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خلافت بھی کرنا ہے۔
یعنی کہ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ بیٹھنا ہےلیکن ﻭﮨﺎﮞ ﯾﺎﺩ ﺭکھنا ہے ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ۔
ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﻭ ﻣﺘﺼﺮﻑ ﮨﻮنا ہے لیکن یہ بھی ﯾﺎﺩ رکھنا ہے ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻣﯿﻦ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﺋﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺻﻞ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ۔
ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻭ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﭩﮭﻦ ﮐﺎﻡ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ لینا ہے ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﭽﺎﺋﯽ، ﺍﻧﺼﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﭘﺴﻨﺪﯼ ﮐﮯ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﺍﺻﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ بھی کرنا ہے۔ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻟﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺻﻨﻌﺖ ﮐﯽ ﺑﺎﮔﯿﮟ ﺳﻨﺒﮭﺎلنا بھی ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮎ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭘﺎﮎ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ بھی کرنا ہے۔
علاوہ ازیں زندگی میں سستی اور کاہلی کا بھی دخل ہے، لیکن سستی اور کاہلی وقت کی ناقدری اور صحیح نہ استعمال کرنے سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ وقت کی قدر و قیمت کا احساس و شعور جسکے اندر ہوتا ہے اسکی زندگی حرکت و عمل سے عبارت ہوتی ہے، اور وہ اپنے زمانے کا کامیاب انسان کہلاتا ہے، کیونکہ زندگی میں احساس بیداری پیدا کرنے کے لئے وقت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور اسلام میں وقت کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام کا نظامِ عبادت اوقات کے ساتھ مربوط و منظم ہے، اور نمازوں کے اوقات متعین ہیں، کیونکہ فجر کی نماز ظہر کے وقت نہیں پڑھی جاسکتی، مغرب کی نماز عصر کی نماز کے وقت نہیں پڑھی جاسکتی، اسی طرح روزوں کے واسطے رمضان کا مہینہ خاص ہے، حج کے لیے چند مخصوص ایام ہیں۔
اور اگر غور کیا جائے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ روز محشر میں حساب و کتاب اور اعمال نامہ کا تعلق بھی وقت سے ہے، اس لئے کہ اعمال کا صدور بھی اوقات ہی میں ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ اسلام میں وقت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
لیکن اگر وقت کو یوں ہی ضائع کردیا جائے تو اسکا شمار سستی اور کاہلی میں ہوتا ہے اور اگر وقت کو نیک اعمال میں صرف کیا جائے، بندگی خدا میں گذارا جائے، اور اللہ کے اس خلافت کو قائم کیا جائے جسے اللہ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے تو اسکا شمار احساس بیداری میں ہوتا ہے۔ اور زندگی نام ہی ہے احساس بیداری کا، نہ کہ سستی و کاہلی کا۔
اللہ ہمیں وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور سستی و کاہلی سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین