Friday, October 18, 2024 | 1446 ربيع الثاني 15
National

جمعیۃ علماء ہند کی طویل آئینی جد وجہد رنگ لائی

نئی دہلی ۱۷؍ اکتوبر : سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A کو آئینی قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 ججوں کی بنچ نے کثرت رائے سے یہ فیصلہ سنایا اور آسام کے لیے کٹ آف ڈیٹ 1971 کو قانونی طور پر درست قرار دیا ۔اس فیصلے سے آسام کے لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی جن کے اوپر دہائیوں سے شہریت کی تلوار لٹکی ہوئی تھی ۔
جمعیۃ علما ء ہند کی آئی اے No. 274/2009 پر فیصلہ سنا تے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آسام معاہدہ کے مطابق ہے جس کی رو سے جو شخص بھی  25مارچ 1971 سے پہلے آسام میں رہ رہا تھا، وہ اور اس کی اولاد ہندوستانی شہری شمار کی جائے گی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس سندریش اور جسٹس منوج مشرا نے 6A کی آئینی حیثیت کے حق میں فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس چندر اچوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آسام معاہدہ غیر قانونی پناہ گزینوں کے مسئلے کا سیاسی حل تھا اور اس میں دفعہ 6A قانون کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت اس قانون کو دوسرے علاقوں میں بھی لاگو کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیوں کہ یہ آسام کے لئے خاص ہے۔عدالت نے مانا کہ 6A کے تحت 25 مارچ 1971 کی کٹ آف ڈیٹ بھی درست ہے کیوں کہ آزادی کے بعد بھارت کے دوسرے علاقوں کے مقابلے مشرقی پاکستان سے آسام میں ہجرت زیادہ ہوئی۔  جمعیۃ علماء ہند اور اس کی ریاستی یونٹ جمعیۃ علماء آسام، صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی قیادت* میں پچھلے پندرہ سالوں سے سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑرہی ہے، کئی نامور وکیلوں نے آسام کے لاکھوں مظلوم انسانوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیروی کی ۔ اس مقدمہ کے اول وکیل شکیل احمدسید ،کووڈ کے دور میں داغ مفارقت دے گئے، اس کے باوجود جمعیۃ علماء ہند کی جد وجہد کا یہ سفر بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔اس فیصلے کے بعد آسام بھر میں جشن کا ماحول ہے ۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی ، ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند مولانا حکیم الدین قاسمی، قانونی معاملات کے نگراں ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل قاسمی ، ناظم اعلیٰ حافظ بشیر احمد قاسمی ، سکریٹری مولانا فضل الکریم ، مولانا محبوب حسن اور مولانا عبدالقادر سمیت کئی اہم ذمہ داروں نے اس فیصلے کا استقبال کیا ہے ۔ 
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند گزشتہ چھ دہائیوں سے آسام کے غریب اور مظلوم انسانوں کے لیے ہر محاذ پر جدوجہد کررہی ہے ، یہ فیصلہ جمعیۃ علماء ہند کی جد وجہد میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا اور ان لوگوں کو راحت ملے گی جو شہریت کی امید کھو بیٹھے تھے ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ آسام این آرسی کے سلسلےمیں سپریم کورٹ میں ہم نو مقدمات لڑرہے ہیں۔ اس سے قبل ایک بڑی کامیابی اس وقت ملی تھی جب ہماری جد وجہد سے ۴۸ لاکھ خواتین کے لیے پنچایت لنک سرٹیفیکٹ کو تسلیم کیا گیا تھا ۔وہ ایسی خواتین تھیں جن کے دوسرے علاقوں میں شادی ہوگئی تھی، ان کے پاس پنچایت سرٹیفکیٹ کے علاوہ اپنے والدین سےرشتہ ثابت کرنے کا کوئی کاغذ نہ تھا، اس وقت بھی جمعیۃ علماء ہند سبھی مظلوم بہنوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں کھڑی تھی ، اس میں مسلم اور غیر مسلم سبھی خواتین شامل تھیں ۔مولانا مدنی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ جمعیۃ علماء ہند آگے بھی آسام کے مظلوم انسانوں کے لیے جد وجہد جاری رکھے گی ۔ صدر جمعیۃ علماء آسام مولانا بدرالدین اجمل نے کہا ہم ان تمام تنظیموں اور افراد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جو کسی بھی طرح اس لڑائی میں شریک رہے اور آسام کے مسلمانوں کی شہریت کے تحفظ کے لئے کوشش کرتے رہے۔
آسا م میں الگ نسلوں کے لوگوں کے ہونے میں کیا غلط ہے ؟
چیف جسٹس چندرا چوڑ نے کہا کہ ریاستوں کو بیرونی حملوں سے بچانا حکومت کا فرض ہے۔ آئین کے آرٹیکل 355 کے فرض کو حقوق کے طور پر پڑھنے سے شہریوں اور عدالتوں کو ہنگامی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو تباہ کن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ریاست میں مختلف نسلی گروپوں کی موجودگی کا مطلب آرٹیکل 29(1) کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ درخواست گزار کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ایک نسلی گروپ دوسرے نسلی گروپ کی موجودگی کی وجہ سے اپنی زبان اور ثقافت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے۔
سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A کیا ہے؟
سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کی دفعہ 6A بھارتیہ نژاد غیر ملکی پناہ گزینوں کو جویکم جنوری 1966 کے بعد لیکن 25 مارچ 1971 سے پہلے بھارت آئے، انہیں بھارت کی شہریت طلب کرنے کا حق دیتی ہے۔ اس دفعہ کو 1985 میں آسام معاہدے کے بعد شامل کیا گیا تھا۔ حکومت ہند اور آسام تحریک کے رہنماؤں کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔ دراصل آسام تحریک کے رہنما بنگلہ دیش سے آسام میں غیر قانونی پناہ گزینوں کو نکالنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 
 15اگست 1985  کو آنجہانی راجیو گاندھی کی سربراہی والی مرکزی حکومت، آسام کی صوبائی حکومت اور تحریک چلانے والی تنظیموں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جسے " آسام اکورڈ  " کا نام دیا گیا جس میں یہ طے پایا کہ جو لوگ بھی 25،مارچ 1971  سے پہلے آسام میں آگئے تھے خواہ وہ کہیں سے بھی آئے ہوں اور جو بھی ہو ں، ان سب کو ہندوستانی تسلیم کیا جائے گا۔تمام فریقوں نے اس معاہدہ پر دستخط کئے اور ایک معاملہ حل ہوگیا، اور اُس کے بعد مرکزی سرکار نے شہریت ایکٹ 1955  میں ترمیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں بل لاکر سیکشن 6Aکو داخل کیا، جس میں آسام کو دیگر ریاستوں سے مستثنی کرتے ہوئے وہاں شہریت کے لئے1971کو cut-Off year   قرار دیا گیا۔ مگر2009  میں " آسام سنمیلیٹا مہاسنگھا"  نامی ایک غیر معروف تنظیم نے سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کرکے آسام اکورڈ اور شہریت ایکٹ کے سیکشن6A کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی۔اس تنظیم کی مانگ تھی کہ آسام میں جو لوگ 1950سے پہلے آئے ہیں صرف ان کو ہی ہندوستانی مانا جائے جیسا کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں یہی پیمانہ ہے۔
جمعیۃ علماء صوبہ آسام نے عدالت عظمی میں اس مقدمہ میں فریق بنتے ہوئے اسے چیلنج کیا اور آسام اکورڈ کو برقرار رکھنے کی مضبوطی کے ساتھ وکالت کی۔ جمعیۃ علماءہند کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی سینئر وکیل ایم آر شمشاد، دشینت داوے، اندرا جے سنگھ ، ایڈوکیٹ منصور علی خاں ، شکیل احمد سید مرحوم ( تا وفات ۲۰۲۰) سنجے ہیگڑے، آسام سے عبدالصبور تفادار، مصطفی خدام حسین، نظر الحق مزار کررہے تھے ۔
مقدمہ نمبر من جانب جمعیۃ علماء ہند
I.A. no. 8/2012 and I.A. No. 20/2015 in W.P. (C) No. 562/2012 and I.A. Nos. 5/2013 in W.P. (C) No. 274/2009