جموں و کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک دہشت گردی کی فنڈنگ کیس میں تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے دہلی ہائی کورٹ سے یاسین ملک کی عمر قید کی سزا کو سزائے موت میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پیر (11 اگست) کو اس پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے کشمیری علیحدگی پسند لیڈر یاسین ملک کو این آئی اے کے مطالبے کا جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔ اس کیس کی سماعت دہلی ہائی کورٹ کے ججوں جسٹس وویک چودھری اور جسٹس شیلندر کور کی ڈویژن بنچ کر رہی ہے۔ عدالت نے علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو جواب داخل کرنے کے لیے چار ہفتے کا وقت دیا اور آئندہ سماعت 10 نومبر کو مقرر کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس معاملے میں سماعت کے دوران این آئی اے کے خصوصی وکیل ایڈوکیٹ اکشے ملک نے 9 اگست 2024 کے ایک سابقہ عدالتی حکم کا حوالہ دیا جس میں یاسین ملک نے اس معاملے میں اپنا فریق خود پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ ساتھ ہی سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر یاسین ملک کی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے موجودگی کو بھی لازمی قرار دیا گیا تھا تاہم ملک گزشتہ سماعت میں عملی طور پر پیش نہیں ہوئے تھے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ سال 2022 میں علیحدگی پسند رہنما یاسین ملک کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ نچلی عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ سزائے موت کے قانونی معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اسی لیے یاسین ملک کو سزائے موت نہیں دی گئی۔
2017 میں درج این آئی اے کیس میں ملک اور دیگر پر جموں و کشمیر میں بدامنی پھیلانے کے لیے پاکستان میں مقیم دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ۔ مارچ 2022 میں، حافظ محمد سعید، شبیر احمد شاہ، حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین، راشد انجینئر، ظہور احمد شاہ وتالی، شاہد الاسلام، الطاف احمد شاہ (عرف فنتوش)، نعیم خان اور فاروق احمد دارالاسام سمیت کئی دیگر ملزمان کے خلاف الزامات عائد کیے گئے۔