اس وقت ہندوستان کے جو حالات ہیں وہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے آئے دن مسلمانوں کی دل ازاری کی جا رہی ہے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے نئی نئی تر کیبیں اپنائی جا رہی ہے،
کبھی مسجدوں کو نشانے پے لیا جاتا ہے تو کبھی قرآن کبھی صحابہ کرام،مزارات اولیاء، قبرستان، تو کبھی جۓ شری رام کے نعرے کے ساتھ مسلمانوں کا ماب لنچنگ کیا جاتا ہے تو کبھی مسلمانوں کے گھروں کو جرم ملوث ہونے کے نام پر توڑا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ شر پسند طاقتیں حضور علیہ السلام کی شان میں بھی گستاخی کرکے آزاد ہیں،
حیرت تو تب ہوتی ہے جب وہ حکومتیں جس کے زیر نگرانی قوانین پر ہم دل و جان سے بھروسہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی حکومت ان باتوں کو نظر انداز کر رہی ہے کہ حضور علیہ السلام کے ناموس یہ مسلمانوں کا اصل سرمایہ ہے۔
اگر مسلمانوں کے سامنے ناموس رسالت کی توہین کی جائے، حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی جائے تو یہ ممکن ہے کہ ملک کا حال بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔
ایک عاشق رسولﷺ کسی بھی صورت میں حضور ﷺ کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اور حضور ﷺ کی شان کیا ہے حضور کی گستاخی کرنے والوں کی سزا کیا ہے یہ
روز روشن کی طرح واضح ہے۔
گستاخ رسول ﷺ: ایک سنگین جرم اور اس کے نتائج**
*مقدمہ:*
رسول اللہ ﷺ کی عزت و حرمت ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جز ہے۔ حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل برداشت لمحہ ہے جو کہ ایک سنگین جرم ہے۔ اس تحریر میں گستاخ رسول ﷺ کے مسئلے کی نوعیت، اسلامی تعلیمات، اور اس کے نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
*1. اسلامی نقطہ نظر:*
اسلام ایک دینِ رحمت ہے اور حضور اکرم ﷺ کو "رحمت للعالمین" کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ناقابل معافی جرم ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
*وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ"* (سورة النساء: 13-14)
رسول ﷺ کی اطاعت اور ان کی محبت ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ ان کی شان میں گستاخی اللہ کی ناراضگی اور جہنم کی دائمی سزا کا سبب بن سکتی ہے۔
*2. تاریخی واقعات:*
تاریخ میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں گستاخ رسول ﷺ کے خلاف سخت اقدام اٹھائے گئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت علیؓ جیسے عظیم صحابہ نے بھی گستاخوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ امت مسلمہ کے لیے ہر دور میں حساس رہا ہے۔
*3. قانونی پہلو:*
اسلامی شریعت میں گستاخ رسول ﷺ کے لیے سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ مختلف اسلامی ممالک میں یہ قانون آج بھی موجود ہے اور اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے ہمارے ائین میں ہندوستان کے قانون کے اندر بھی یہ بات صاف طور پر واضح تحریر ہے اگر کوئی کسی مذہبی اسکالر پر انگلی اٹھاتا ہے تو فورا اس پہ مقدمہ درج کرایا جائے اور کڑی سے کڑی سزا اسے ملنی چاہیے یہ ہمارے آئین کے اندر سنہرے لفظوں میں بھی موجود ہے،
*4. عوامی شعور اور احتجاج:*
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی محبت رسول ﷺ کا اظہار پر امن طریقے سے کریں، اور گستاخی کے خلاف پرزور احتجاج کریں۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ احتجاج کے دوران اسلام کی تعلیمات کے مطابق صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔
*5. دعوت اور تبلیغ:*
گستاخ رسول ﷺ کے معاملے میں ہمیں دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروانا ہوگا۔ حضور اکرم ﷺ کے اخلاق اور ان کی زندگی کے عملی نمونے کو سامنے لانا ہوگا تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کتنی بڑی غلطی ہے۔
*خاتمہ:*
ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے ایمان کی حفاظت کریں اور رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی محبت اور ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
از قلم :مولانا محمد صدام خان آرزو نعیمی
مغربی بنگال،آسنسول پچھم بردوان بنگال