نئی دہلی، 1 دسمبر 2024:سنبھل واقعہ اور اجمیر درگاہ پر ہندوؤں کے دعوے کے تناظر میں، سپریم کورٹ آف انڈیا 4 دسمبر یعنی بدھ کو عبادت گاہ سیکورٹی ایکٹ سے متعلق جمعیت علمائے ہند کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کرے گی۔
چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کی قیادت میں دو رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گا جس پر پورے ملک کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ سنبھل واقعہ کے بعد جمعیۃ علماء ہند نے اس اہم کیس کی فوری سماعت کی درخواست کی تھی جسے چیف جسٹس آف انڈیا نے قبول کرتے ہوئے 4 دسمبر کو کیس کی سماعت کا حکم جاری کیا۔
سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن اور ورندا گروور سپریم کورٹ آف انڈیا میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایات پر عبادت گاہوں کے سیکورٹی ایکٹ کے استحکام اور اس کے موثر نفاذ سے متعلق دائر درخواست پر بحث کریں گے۔ جمعیت کے وکلاء بھی عبادات کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر عدالت میں اپنے دلائل دیں گے۔
اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے کہ فرقہ پرستوں کی طرف سے ہماری عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات کو لے کر آئے روز نئے تنازعات کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ مایوس کن پہلو یہ ہے کہ ایسے معاملات میں نچلی عدالتیں ایسے فیصلے دے رہی ہیں جس سے ملک میں انتشار اور خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلوں کی آڑ میں نہ صرف فرقہ پرست عناصر بلکہ قانون کے محافظ بھی مسلمانوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں اور انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔ سنبھل کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ظلم ہے جو ملک کے آئین، انصاف اور سیکولرازم کو آگ لگاتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ نچلی عدالتوں کے فیصلوں سے فرقہ پرست عناصر کے حوصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب انہوں نے اجمیر میں واقع خواجہ غریب نواز کی سینکڑوں سال پرانی درگاہ کو بھی ہندو مندر بنانے کا دعویٰ کر دیا ہے۔
یہ حیران کن بات ہے کہ مقامی عدالت نے اس درخواست کو قابل سماعت قرار دیا ہے، اس سے ان فرقہ پرستوں کے مذموم عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ایسی صورتحال میں سپریم کورٹ ہی انصاف اور سیکولر آئین کے وجود کا آخری سہارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ اس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ ایسے بہت سے اہم معاملات میں جب ہم ہر طرف سے مایوس تھے، ہمیں سپریم کورٹ سے ہی انصاف ملا ہے، اس لیے ہمیں پوری امید ہے کہ 1991 کے قانون کے حوالے سے بھی انصاف ملے گا۔