بدایوں: ریاست اترپردیش كے ضلع بدایوں كی جامع مسجد کو نیل کنٹھ مہادیو مندر کے طور پر دعویٰ کرنے کے معاملے میں آج سول جج سینئر ڈیویژن کورٹ میں سماعت ہوئی۔ آج مسلم فریق کی سماعت مکمل نہ ہوسکی۔ کیس کی اگلی سماعت 10 دسمبر کو صبح 10:30 بجے مقرر كی گئی ہے۔
ہندو مہاسبھا کے صدر مکیش پٹیل نے عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے دعوی كیا كہ جامع مسجد جگہ پہلے نیل کنٹھ مہادیو کا مندر تھا۔ مکیش پٹیل نے دعویٰ کیا ہے کہ قطب الدین ایبک کے دور میں مندر کو گرا کر مسجد بنائی گئی تھی۔
اس سے قبل سماعت میں حکومت کی جانب سے موقف پیش کرتے ہوئے اسے محکمہ آثار قدیمہ كا قومی ورثہ قرار دیا ہے۔
یہ بھی کہا کہ قومی ورثے سے 200 میٹر کے فاصلے تك سرکاری جگہ ہے۔ عدالت نے یوپی سینٹر سنی وقف بورڈ، حکومت ہند، چیف سکریٹری یوپی، محکمہ آثار قدیمہ اور ڈی ایم بدایوں کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔ اس کے بعد وقف بورڈ اور انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے بحث چل رہی ہے۔ اب اس معاملے کی سماعت ہونی ہے۔
جامع مسجد کا مقدمہ لڑنے والے ایڈووکیٹ اسرار احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ یہ 850 سال پرانی جامع مسجد ہے۔ یہاں کبھی مندر تھا ہی نہیں۔ انہوں نے ہندو مہاسبھا کے مندر ہونے كے دعوے كو بے بنیاد قرار دیا ، جس چیز کا کوئی وجود نہیں اس کی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ہم پرانے ریکارڈ کو دیکھیں تو بھی جامع مسجد یہاں سرکاری ریکارڈ میں درج ہے۔
مقامی لوگوں كا كہنا ہے كہ مغل خاندان کے حکمران شمس الدین التمش نے 1223ء میں اپنی بیٹی رضیہ سلطان کی پیدائش پر یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔ رضیہ سلطان پہلی مسلم حکمران بنی۔ شمس الدین صوفی نظریہ کے مبلغ تھے۔ جب وہ بدایوں میں آیے تو یہاں کوئی مسجد نہیں تھی۔ اسی وجہ سے انہوں نے یہ مسجد تعمیر کرائی۔